
کینیا حکومت کے ذرائع نے کینیا سے واپس آنے والی پاکستانی تحقیقاتی ٹیم کو. بتایا ہے کہ رشد شریف قتل والی رات کینیا کی ایموڈمپ شوٹنگ رینج پر 10 امریکیوں کے ساتھ تھے۔ارشد شریف قتل والی شب ایموڈمپ شوٹنگ رینج پر تھے۔ذرائع کا بتانا ہے کہ انسٹرکٹر اور ٹرینر بھی اس موقع پر ایموڈمپ شوٹنگ رینج پر موجود تھے۔کینیا حکومت کے قابل اعتماد ذرائع کا کہنا ہے کہ ارشد شریف نے 22 اور 23 اکتوبر کو امریکی انسٹرکٹرز اور دیگر کے ساتھ ڈنر کیا،اسکے ساتھ ساتھ کینیا میں ارشد شریف کی کیا سرگرمیاں تھیں اس بار مختلف حقائق و انکشافات سامنے آنے ہیں چوری شدہ گاڑی کے مالک کاکہنا ہے کہ پولیس کو علم تھا کہ اصل گاڑی

نیروبی شہر کے مضافات میں موجود ہے جبکہ ارشد شریف کی گاڑی پر گولی نیروبی سے 100 کلومیٹر سے بھی زیادہ دور مقام پر چلائی گئی۔چوری شدہ گاڑی کے مالک ڈگلس کمائو نے تحقیقاتی صحافیوں کے گروپ فیکٹ فوکس کو ایک تحریری بیان میں بتایا ہے کہ ان کی گاڑی میں ٹریکنگ کے جدید ترین آلات نصب تھے جو گاڑی کی لمحہ بہ لمحہ لوکیشن سے پولیس کو آگاہ کر رہے تھے۔کمائو نے یہ بھی بتایا کہ پولیس نے ان کے ہمراہ ان کی گاڑی رات ساڑھے نو بجے بازیاب کرا لی تھی جبکہ ارشد شریف کی گاڑی کو ناکہ لگا کر روکنے کی کوشش اور فائرنگ کا واقعہ، پولیس کی رپورٹ کے مطابق، رات دس بجے پیش آیا تھا۔

ڈگلس کاکہنا ہے کہ پولیس کو علم تھا کہ اصل گاڑی نیروبی شہر کے مضافات میں موجود ہے جبکہ ارشد شریف کی گاڑی پر گولی نیروبی سے 100 کلومیٹر سے بھی زیادہ دور مقام پر چلائی گئی۔چوری شدہ گاڑی کے مالک ڈگلس کمائو کے مطابق ان کی گاڑی میں ٹریکنگ کے جدید ترین آلات نصب تھے جو گاڑی کی لمحہ بہ لمحہ لوکیشن سے پولیس کو آگاہ کر رہے تھے۔کمائو نے یہ بھی بتایا کہ پولیس نے ان کے ہمراہ ان کی گاڑی رات ساڑھے نو بجے بازیاب کرا لی تھی جبکہ ارشد شریف کی گاڑی کو ناکہ لگا کر روکنے کی کوشش اور فائرنگ کا واقعہ، پولیس کی رپورٹ کے مطابق، رات دس بجے پیش آیا تھا۔ طور پر چوری ہونے والی گاڑی اور جس گاڑی میں ارشد شریف سوار تھے دونوں کا رجسٹریشن ریکارڈ باضابطہ طور پر درخواست دے کرحاصل کیا ہے۔ ارشد شریف جس گاڑی ٹویوٹا لینڈ کروزر میں سوار تھے اسکی تصاویر میڈیا میں شائع ہوئیں۔ فیکٹ فوکس نے ڈگلس کی گاڑی کی تصویر انٹرنیٹ سے حاصل کر کے ڈگلس کے آفس سے اس کی تصدیق بھی کروائی۔ دونوں گاڑیوں کی ظاہری شکل میں زمین آسمان کا فرق ہے۔لیے وہ اس موضوع پر کوئی بیان نہیں دے سکتے۔ابتدائی بیانات میں کینیا کی پولیس نے اس ہلاکت کو ’شناخت میں غلطی‘ کی بنیاد پر کی گئی کاروائی قرار دیا تھا۔کینیا کی پولیس پر ماورائے عدالت قتل کے الزامات تواتر سے میڈیا میں رپورٹ ہوتے آئے ہیں۔ مختلف ملکوں کے شہریوں کے کینیا کی پولیس کے ہاتھوں مارے جانے کے واقعات پر ہیومن رائٹس واچ اور دیگر بین الاقوامی ادارے مذمت کر چکے ہیں۔کینیا میں پولیس کے نگران ادارے کی کمشنر کا کہنا ہے ارشد شریف کی گاڑی کو ناکے پر روکنے کے اسباب پر شکوک پائے جاتے ہیں۔کینیا کی انڈیپنڈنٹ پولیسنگ اتھارٹی (آئی پی او اے) کی کمشنر پراکسیڈس ٹروری کا کہنا تھا کہ ابتدئی طور پر ان کا شبہہ یہی تھا کہ ارشد شریف کی گاڑی پر پولیس ناکے پر نہ رکنے کی وجہ سے گولی چلائی گئی۔ لیکن ان کے بقول اب وہ نہیں سمجھتیں کہ اس کی وجہ یہ تھی۔پراکسیڈیس ٹروری کا کہنا ہے کہ ہماری تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ گاڑی کی تلاش کے لیے جو نمبر پلیٹ پولیس کو دی گئی تھی وہ ارشد شریف کی گاڑی کے نمبر سے مختلف تھی۔ یقینی طور پر یہ دو الگ الگ گاڑیاں ہیں۔کے شہریوں کی جبری گمشدگیوں کی شکایات پر پولیس کے ڈائریکٹوریٹ آف کریمنل انویسٹی گیشن کے سپیشل سروس یونٹ کو 24 اکتوبر کو بند کرنے کا حکم دے دیا تھا۔ صدر روٹو کا کہنا تھا کہ پولیس سکواڈ ان شہریوں کی غیر واضح حالات میں ہونے والی اموات کا ذمہ دار ہے جن کی نعشیں ’یالا‘ کے دریا سے ملی تھیں کا نام آصف احمد ہے جو کہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے والد کانام افضال احمد ہے۔ خاندان کے باقی افراد کی طرح ایف آئی اے کے سفری ریکارڈ کے مطابق افضال احمد بھی مسلسل بین الاقوامی سفر کرتے رہے ہیں اور عموماً انکی منزل کینیا ہی ہوتی ہے۔ اس واقعے کے تین دن بعد 26 اکتوبر کو رات 10 بجے افضال احمد کراچی سے بذریعہ دوبئی کینیا کیلیے روانہ ہو گئے۔