لاہور ہائیکورٹ نے زیر حراست ملزمان کے میڈیا انٹرویوز پر پابندی لگادی

Share

ہائیکورٹ میں زیر حراست لوگوں کے انٹرویوز کرنے کے خلاف دائر درخواست پر سماعت ہوئی۔عدالت نے میڈیا کو زیر حراست ملزمان کا انٹرویو کرنے سے روک دیا اور صحافیوں پر شہریوں کی گاڑی روک کر ان سے شناختی کارڈ وغیرہ مانگنے پر بھی پابندی لگادی۔عدالت نے ڈی آئی جی آپریشنز سے کہا کہ زیر حراست ملزمان کا پولیس کی اجازت سے انٹرویو لیا جاتا ہے، 90 فیصد واقعات میں یہ اعتراف جرم ہوتا ہے، آپ نے آخری بار عدالت میں یہ بیان دیا تھا کہ یہ سب فورا بند ہوگا۔پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے جواب دیا کہ یہ سلسلہ کہانی جرم و سزا سے شروع ہوا، پھر ہر چینل پر یہ مواد شروع ہو گیا۔عدالت نے استفسار کیا کہ کیا کوئی میڈیا کا بندہ ملزم سے اعتراف کروا سکتا ہے ؟ کیا ایک ملزم کی اجازت کے بغیر اس کا انٹریو کیا جا سکتا ہے ؟ کیا پولیس یہ اجازت دے سکتی ہے؟سرکاری وکیل نے نفی میں جواب دیا۔عدالت نے ڈی آئی جی انوسٹیگیشن سے استفسار کیا کہ پراسیکیوشن کا عمل انتہائی حساس اور نجی ہے، جو ٹریفک والوں کے ساتھ کھڑے ہو کر، منہ میں مائیک گھسا کر انٹرویو کیے جاتے ہیں، بند ہونے چاہئیں۔عدالت میں زیر حراست لوگوں کے انٹرویو بھی دکھائے گئے۔عدالت نے ریمارکس دیے کہ کوئی صحافی کسی کو زبردستی بات کرنے پر کیسے مجبور کر سکتا ہے؟ جیسے بات کرنے کی آزادی ہے ویسے ہی خاموش رہنے کی بھی آزادی ہے، ایک ریگولیٹری اتھارٹی ہونی چاہیے، ہر شخص جو کیمرہ اور مائیک لے کر چل پڑے اسے صحافی نہیں کہا جا سکتا، اگر ایک صحافی آپ کے پاس آتا اور کوئی سوال کرتا ہے تو آپ جواب نہیں دیتے تو بات ختم ہو جانی چاہیے۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Skip to toolbar