
کراچی کی انسداد دہشت گردی عدالت نےپولیس مقابلے میں مارے جانے والے نقیب اللّٰہ قتل کیس کا فیصلہ سنا دیا، راؤ انوار سمیت تمام ملزمان کو بری کر دیا گیا۔عدالت نے محفوظ کیا گیا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ پراسیکیوشن ملزمان کے خلاف الزامات ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے۔کیس میں مدعی مقدمہ کے وکلاء اور ملزمان کے وکلاء کے دلائل کے بعد 14 جنوری کو فیصلہ محفوظ کیا گیا تھا۔سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار اور دیگر ملزمان عدالت میں پیش ہوئے۔ملزمان میں ڈی ایس پی قمر احمد، امان اللّٰہ مروت اور دیگر شامل ہیں۔نقیب اللّٰہ قتل کیس کے فیصلے کے سبب عدالت میں سیکیورٹی سخت کی گئی تھی۔13 جنوری 2018ء کو ملیر کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے نوجوان نقیب اللّٰہ کو دیگر 3 افراد کے ہمراہ دہشت گرد قرار دے کر مقابلے میں مار دیا تھا۔بعد ازاں 27 سالہ نوجوان نقیب اللّٰہ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس کی تصاویر اور فنکارانہ مصروفیات کے باعث سوشل میڈیا پر خوب لے دے ہوئی اور پاکستانی میڈیا نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس معاملے پر آواز اٹھائی اور وزیر داخلہ سندھ کو انکوائری کا حکم دیا تھا۔تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے ابتدائی رپورٹ میں راؤ انوار کو معطل کرنے کی سفارش کے بعد انہیں عہدے سے ہٹا کر نام ای سی ایل میں شامل کر دیا گیا تھا، جب کہ چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے اس معاملے پر لیے گئے ازخود نوٹس کی سماعت بھی ہوئی تھی۔راؤ انوار نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں خود کو سرنڈر کر دیا تھا جس کے بعد انہیں کراچی منتقل کر دیا گیا تھا۔سابق ایس ایس پی راؤ انوار سمیت 18 ملزمان پر 25 مارچ 2018 کو فرد جرم عائد کی گئی تھی۔انسداد دہشت گردی کی عدالت نے 51 گواہان کے بیان ریکارڈ کیے، کیس میں راؤ انوار اور سابق ڈی ایس پی قمر ضمانت پر جبکہ 13 ملزمان جیل میں ہیں۔سابق ایس ایچ او امان اللّٰہ مروت سمیت 7 ملزمان مفرور ہیں، حتمی دلائل مکمل ہونے پر عدالت نے 14 جنوری کو فیصلہ محفوظ کیا تھا