
حافظ آباد کے گاؤں سالار بھٹیاں میں ایک وقت ایسا آیا جب قانون نہیں، کاشی بھٹی المعروف کاشی سالاریا کی حکمرانی تھی۔ کم عمر، بے رحم اور سرکش یہ بدمعاش اس قدر نڈر ہو چکا تھا کہ گاؤں کے داخلی راستوں پر کھلے عام بورڈ لگا رکھے تھے:“پولیس داخل ہوئی تو نتائج کی ذمہ دار خود ہوگی”۔سال 2012 میں فجر کے بعد واک پر نکلنے والے حافظ آباد کے ایک بڑے تاجر کا اغوا ہوا تو پورا علاقہ سہم گیا۔ تاوان کی کالز آئیں، پولیس نے کئی اضلاع کی نفری جھونک دی، مگر دس دن تک کاشی قانون کی گرفت سے باہر رہا۔ اس کے بعد سکھیکی کے ایک اور تاجر کا اغوا خوف کی وہ لہر بن گیا جس نے امیر طبقے کو بھی گھروں میں محصور کر دیا۔جرأت یہاں تک بڑھی کہ ایک روز چنیوٹ جاتے ہوئے موبائل شاپ پر جھگڑے کے بعد کاشی اور اس کے ساتھیوں نے اندھا دھند فائرنگ کی اور فرار ہو گئے۔ جھنگ کے ناکے پر پولیس نے گھیراؤ کیا، شدید مقابلے میں اس کے تین ساتھی مارے گئے، مگر کاشی پھر بچ نکلا۔ یہی بچ نکلنا اس کے غرور کو آخری حد تک لے گیا۔نشے میں طاقت کے گھمنڈ نے اسے ایسی غلطی پر آمادہ کیا جو ناقابلِ معافی ثابت ہوئی۔ اس نے ایک معروف سیاستدان کو فون کر کے بھتہ مانگا — اور یہی فون کال اس کے انجام کی لکیر بن گئی۔ڈی آئی جی ذوالفقار احمد چیمہ کو خصوصی ٹاسک ملا، خفیہ نگرانی تیز ہوئی، دائرہ تنگ کیا گیا۔کاشی کے خاتمے پر دو کہانیاں گردش کرتی رہیں:ایک یہ کہ اس کے اپنے دوست ہی مخبر نکلے۔دوسری، اور سرکاری مؤقف کے مطابق، خانقاہ ڈوگران کے قریب پولیس مقابلے میں کاشی سالاریا مارا گیا۔یوں جو شخص خوف کی علامت بن چکا تھا، وہ خود خوف کے ہاتھوں مارا گیا۔سالار بھٹیاں میں لگے وہ بورڈ اتر گئے اور ثابت ہوا کہ قانون سے بڑا کوئی نہیں۔پولیس ذرائع کے مطابق کاشی سالاریا کو جب گھیر کر مارا گیا تو پولیس نے خوف کے مارے اسکی لاش پر درجنوں گولیاں چلائیں تاکہ کہیں وہ زندہ نہ اٹھ کھڑا ہو
awareinternational A Credible Source Of News
Aware International © Copyright 2025, All Rights Reserved