
ٹی آئی کو جلسے اور دھرنے کیلئے این او سی جاری نہ ہونے کا معاملے پر چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس عامر فاروق نے پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ ان او سی کے معاملے پر انتظامیہ نے فیصلہ کرنا ہے ، آپ کے پاس ابھی تک ٹائم فریم ہی نہیں کہ کب آنا ہے اور کتنی دیر رکنا ہے ، اجازت کا معاملہ آپ پر ہے، عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ عدالت یہ نہیں کہ سکتی ایف 9 پارک کر لیں، ادھر یا اُدھر کر لیں، چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہا کہ ٹائم فریم کیساتھ این او سی کیلئے نئی درخواست بھی فائل کر سکتے ہیں، اگر کوئی صوبہ وفاق کے حکم پر عمل درآمد نہیں کرتا تو کیا ہو گا؟ چیف جسٹس ہائیکورٹ کا دوران سماعت سوال، ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ وفاق کے پاس اختیارات ہیں کہ آرمڈ فورسز کو طلب کر لیں، جس پر چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ تاجروں کی درخواست پر کیا کریں؟ ابھی راستے بند تو نہیں کیے
لاہور ہائیکورٹ میں بھی یہ معاملہ آیا تھا اور کچھ ڈائریکشنز دی گئی ہیں اگر انہوں نے کہ دیا ہے کہ راستے بند نہیں ہوں گے تو ٹھیک ہے، آزادی اظہار رائے اور دیگر بنیادی حقوق کا یہ مطلب نہیں کہ سڑکیں بند کر دی جائیں، آپ کو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئیے، عدالت کا پی ٹی آئی کے وکیل سے مکالمہ، چیف جسٹس نے کہا کہ اگر اسلام آباد میں جلسہ یا کچھ کرنا ہے تو ڈی سی کو نئی درخواست دیں، عدالتاین او سی سے متعلق آپ کی پرانی درخواست غیر موثر ہو چکی ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ تاجروں کی درخواست پر کیاکریں، ابھی راستے بند تو نہیں کیے، کوئی صوبہ وفاق کی ڈائریکشن نہیں مانتا تو پھر کیا ہوگا، فیڈریشن امن و امان کی صورتحال کنٹرول کرنےکیلئےکیاکرسکتی ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل جہانگیرجدون نے عدالت سے کہا کہ وفاق آئین کے تحت آرمڈ فورسز کو طلب کرسکتا ہے۔عدالت نے پی ٹی آئی اور تاجروں کی یکجا درخواستوں پر سماعت 22 نومبر تک ملتوی کردی۔