
۔ڈیجیٹل ماہرین اور شفافیت کی رپورٹس کی رائے میں حکومت پاکستان کےلیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ یہ مواد از خود نکلواسکے تاہم وہ اس ڈیٹا تک رسائی یا اسے مقامی قوانین یا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے اپنی کمیونٹی گائیڈلائنز کے تحت انہیں نکلوانے کےلیے درخواست دے سکتے ہیں۔ پاکستان کی نمائندگی کرنے والی پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کےوکیل نے سندھ ہائیکورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ اس کے پاس فیس بک، ٹوئٹر یا یوٹیوب پر مواد ہٹانے کا اختیارنہیں ہے۔ اسے ان سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹ کی کمپنیوں کے حکام کو لکھنا پڑتا ہے۔ کسی بھی غیر اخلاقی مواد یا صارف کے اکاؤنٹ کے حوالے سے مقامی قوانین کی خلاف ورزی ہونے کے حوالے سے ان سوشل میڈیا ویب سائٹس کے اپنے قوانین اور کمیونٹی گائیڈلائنز موجود ہیں اور اگر ان کی خلاف ورزی ہوئی ہو تو سوشل میڈیا نیٹ ورکنگ ویب سائٹس ایسا مواد اپنے پلیٹ فارم سے ختم کر سکتی ہیں۔ یوٹیوب کمیونٹی گائیڈلائنزانفورسمنٹ کی رپورٹ بتاتی ہے کہ پاکستان دنیا کے ان سات بڑے ممالک میں ہے جہاں گزشتہ ایک سال کے دوران سب سے زیادہ ویڈیوز ایک سال کے اندر ڈیلیٹ کی گئیں۔ جولائی 2022 سے ستمبر 2023 کے دوران یوٹیوب نے 11 لاکھ ویڈیوز پاکستانی حکومت کی درخواست پر ڈیلیٹ کیں۔ فیس بک کی پیئرنٹ کمپنی میٹا کی رپورٹ کے مطابق جنوری سے جون 2023تک حکومت پاکستان نے 1407 ڈیٹا درخواستیں بھیجیں۔ فیس بک نے 77.83درخواستیں پروڈیوس کیں، ان درخواستوں کے ذریعے حکومت نے 1639 صارفین یا اکاؤنٹس کے ڈیٹا تک رسائی کےلیے کہا۔ دلچسپ امریہ ہے کہ میٹا کے ڈیٹا سے پتہ چلتا ہے کہ سوشل میڈیا صارفین اور اکاؤنٹس کے خلاف کریک ڈاؤن پی ٹی آئی کے جولائی 2018 سے لے کر جولائی 2020 کے دور میں بڑھا۔ اس دور میں حکومت نے سب سے زیادہ ڈیٹاریکوئسٹس میٹا کو بھجوائیں۔ بائٹس فارآل کے سینئر پروگرام مینیجر ہارون بلوچ کے مطابق پاکستانی حکومت کیلیے سوشل میڈیا یا نیٹ ورکنگ ویب سائٹس کے ہدف شدہ مواد کو ختم کرانا ممکن نہیں ہوگا۔ حکومت کو ان کمپنیوں سے رابطہ کرنا پڑتا ہے۔ٹک ٹاک صرف سوشل نیٹ ورکنگ پلیٹ فارم ہے جس نے حکومت پاکستان کی درخواست پر بڑی مقدار میں مواد ہٹایا ہے۔ دیگر کمپنیاں خواہ وہ ٹوئٹر ہوں یا میٹا وہ بھی درخواستیں لے تو لیتے ہیں لیکن عمل اپنی کمیونٹی گائیڈلائنز کے مطابق کرتے ہیں