
ملتان سلطانز کے مالک ،منیجنگ ڈائریکٹر اور استحکام پاکستان پارٹی کے سربراہ جہانگیر ترین کے بھائی عالمگیر ترین نے خودکشی کرلی۔ پولیس ذرائع کے مطابق عالمگیر ترین نے پستول سے اپنے سر میں گولی مارلی۔عالمگیر ترین معروف بزنس مین اور پاکستان سپر لیگ(پی ایس ایل) کی ٹیم ملتان سلطانز کے مالک اور مینیجنگ ڈائریکٹر تھے۔عالمگیر ترین لاہور کے علاقےگلبرگ میں واقع اپنےگھر میں تھے، وہاں سے اطلاع ملنے پر پولیس پہنچی ہے۔بتایا جارہا ہےکہ عالمگیر ترین نے ایک نوٹ چھوڑا ہے

جس میں انہوں نے بتایاکہ میں بیمار ہونےکی وجہ سےخودکشی کررہا ہوں۔ذرائع کے مطابق عالمگیر ترین کے قریبی دوستوں کا کہنا ہےکہ ہم نے بظاہر ان میں کوئی بیماری نہیں دیکھی۔عالمگیر ترین نےگورنمنٹ کالج اوربیرون ملک سےتعلیم حاصل کی تھی، ان کی شادی نہیں ہوئی تھی، منگنی ہوئی تھی اور دسمبر میں شادی طے تھی۔ ابتدائی تفتیش میں پتا چلا ہےکہ خودکشی صبح 6 سے7 بجےکےدرمیانی وقت میں کی گئی اور تحریر شدہ لیٹر ایک صحفہ پر مشتمل ہے، لیٹر پر تحریر عالمگیر ترین کی اپنی ہی ہے جب کہ موقع سے گولی کا ایک خول ملا ہے۔ ڈاکٹرز نے بھی چیک کیا تو پتا چلا کہ گولی سر میں ماری گئی ہےذرائع کے مطابق رات کو عالمگیر ترین معمول کے مطابق اپنے بیڈروم میں سوئے، وہ صبح 10 بجے تک نہ اٹھے تو ملازم نے آکر دروازہ کھٹکھٹایا، دروازہ نہ کھلنے پر ملازم نے کھڑکی سے دیکھا تو عالمگیر ترین کو خون میں لت پت پایا۔ذرائع کےمطابق واقعے کے بعد ملازم نے فوری طورپرجہانگیرترین کو اس بارے میں اطلاع دی جس کے بعد جہانگیر ترین فوری طور پر پہنچ گئےپولیس حکام کے مطابق عالمگیر ترین نے خودکشی سے قبل ایک تحریر بھی چھوڑی ہے جس میں انہوں نے اپنی بیماری کا ذکر کیا ہے۔دوسری جانب ان کے قریبی دوستوں کا کہنا ہے انہیں عالمگیر ترین کی بیماری کا علم نہیں۔عالمگیر ترین غیر شادی شدہ تھے، ان کے دوستوں کے مطابق عالمگیر ترین کی عمر 63 سال تھی، عالمگیر خان ترین نے جنوبی پنجاب میں ایک سرکردہ بزنس مین کے طور پر اپنا نام قائم کیا۔مرحوم شمیم اینڈ کمپنی (پرائیویٹ) لمیٹڈ کے مینیجنگ ڈائریکٹر تھے، جو جنوبی پنجاب کے لیے پیپسی کمپنی کی آفیشل بوٹلر اور فرنچائز ہے، عالمگیر ترین ملک کا سب سے بڑے پانی صاف کرنے کا پلانٹس بھی چلارہے تھے۔عالمگیر ترین کان نے برکلے کی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سے بیچلر کیا اور بعد میں معروف ییل یونیورسٹی سے ماسٹرز کی ڈگری مکمل کی۔کھیلوں کے شوقین عالمگیر ترین معاشرے کی بہتری میں کھیلوں کے کردار پر گہرا یقین رکھتے تھے اور خواہشمند کھلاڑیوں اور خواتین کے لیے ایک ٹھوس پلیٹ فارم قائم کرنے اور انہیں اپنی صلاحیتوں کو مزید فروغ دینے کے لیے بہترین ممکنہ وسائل فراہم کرنے کے لیے کام کرنا چاہتے تھے