مکتی باہنی کے ہاتھوں 2 لاکھ بہاریوں کا قتل…

Share

مکتی باہنی کے ہاتھوں 2 لاکھ بہاریوں کا قتل…

سقوط ڈھاکہ سے قبل بیرون ممالک میں جاسوسی اور دہشت گردی کرانے کے لیے را کا قیام عمل میں آچکا تھا۔.

لہذا مشرقی پاکستان میں پاک افواج کے خلاف کارروائیاں کرنے اور باغیوں کو مدد دینے کا منصوبہ را کے حوالے کردیا گیا۔
را کا سربراہ، آر این کاؤ تھا۔ اس نے را کے سیکڑوں ایجنٹ مشرقی پاکستان بھجوا ئے تھے جو شیخ مجیب کے زیر اثر چلنے والی علیحدگی پسند تحریک کو کامیاب کرنے کی سعی کرنے لگے۔ ان سے مسلسل رابطہ رکھنے کی خاطر پاک بھارت سرحد پر را کے کئی مراکز تعمیر کیے گئے
بھارتی ریاستوں مغربی بنگال، ارونا چل پردیش، بہار، آسام، ناگالینڈ، میزورم اور تری پورا میں را کے ایجنٹوں اور بھارتی فوجیوں نے مکتی باہنی کے گوریلوں کے لیے ٹریننگ کیمپس قائم کئیے

مشرقی پاکستان میں بھارتی خفیہ ایجنٹوں کی سرگرمیاں بہت بڑھ گئیں تھیں۔ حتیٰ کہ انہوں نے پاک بحریہ اور سول سروس سے وابستہ بعض بنگالی ملازمین کو بغاوت پر آمادہ کر لیا گیا۔
عوامی لیگ کے رہنما” را” کے حکومت و فوج میں شامل بنگالی افسروں سے رابطہ کرانے لگے۔ ان کے سامنے یہی رونا رویا جاتا کہ حکومت ہر شعبے اور سطح پر بنگالیوں کا استحصال کررہی ہے۔اس کا مقصد پاک فوج کے خلاف اعلان جنگ کرنا تھا۔ یہ بغاوت تاریخ میں ’’اگر تلہ سازش کیس‘‘ کے نام سے مشہور ہوئی۔
اگرتلہ بھارتی ریاست تری پورہ کا دارالحکومت ہے۔ مشرقی پاکستان کو پاکستان سے الگ کرنے کی سازش وہیں تیار کی گئی تھی۔ یہ کیس چلا فرد جرم میں بتایا گیا تھا کہ یہ سازش بھارت کی فنڈنگ سے تیار کی جارہی تھی اور اسلحہ بھی بھارت ہی کو فراہم کرنا تھا۔ اگرتلہ سازش کیس سے ہی لفظ بنگلا دیش سامنے آیا۔ شیخ مجیب نے 23 مارچ 1971ء کو ڈھاکا کے ایک جلسے میں مجوزہ بنگلا دیش کا جو پرچم لہرایا تھا، اْس کے ڈیزائن کی منظوری اگرتلہ میں ہونے والے اجلاس ہی میں دی گئی لیکن اس کیس میں شیخ مجیب کو گرفتار تو کیا گیا لیکن بعدازاں چھوٹ دے دی گئ جیسے آج کل سیاست دانوں کو انکی ریشہ دیوانوں پہ چھوٹ ملتی ہے
(چند سال قبل 22 فروری 2011 کو ، اگرتلا سازش کیس کے ایک ملزم شوکت علی نے بنگلہ دیش میں پارلیمنٹ کو بتایا کہ اگرتلا سازش کیس جھوٹا نہیں تھا اور ملزمان کے خلاف لگائے گئے الزامات سب سچ ہیں۔ انہوں نے یہ بھی تصدیق کی کہ نیوی اسٹیورڈ ‘مجیب الرحمٰن اور ماہر تعلیم‘ محمد علی رضا واقعتا بنگلہ دیش کی آزادی کے لئے ہندوستان کی حمایت حاصل کرنے ہندوستان کے شہر اگرتلہ گئے تھے۔)

اسی دوران ملک میں الیکشن کا اعلان کیا گیا۔ مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب کی عوامی لیگ جبکہ مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی کا پلڑا بھاری تھا۔ الیکشن کا جب نتیجہ آیا تو مشرقی پاکستان کی کل 162 نشستوں میں سے عوامی لیگ نے 160 جیت لیں جبکہ مغربی پاکستان کی 135 نشستوں میں سے پیپلز پارٹی نے 81 نشستیں جیتیں
دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ انیس سو ستر کے عام انتخابات میں عوامی لیگ نے تو مغربی پاکستان میں درجن بھر امیدوار کھڑے کیے تھے مگر پیپلز پارٹی نے مشرقی پاکستان میں ایک بھی ٹکٹ نہیں دیا۔
شیخ مجیب نے مشرقی پاکستان میں اپنے چھ نکات کے ساتھ الیکشن لڑا تھا۔ شیخ مجیب الرحمن کے چھ نکات کے پیش نظر ذوالفقار علی بھٹو اس بات کو سختی سے رد کرتے تھے کہ شیخ مجیب کو متحدہ پاکستان کا وزیراعظم ہونا چاہیے۔
جنرل یحییٰ خان نے نئی قومی ا سمبلی کااجلاس ڈھاکہ میں طلب کیا مگر بھٹو نے دھمکی دی کہ مغربی پاکستان سے کوئی رکن اس اجلاس میں شریک ہونے گیا تو واپسی پر اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی اور کیا یہ حقیقت نہیں کہ مغربی پاکستان سے صرف احمد رضا قصوری اس اجلاس میں شرکت کے لئے ڈھاکہ گئے اور جب بھٹو کی حکومت بنی تو ان کی گاڑی پر فائرنگ کی گئی جس میں احمد رضا قصوری کے والد شہید ہو گئے۔ یہی مقدمہ قتل بعد میں بھٹو کی پھانسی کی وجہ بنا۔
حصول اقتدار کے لیے بھٹوصاحب کا رویہ بڑا جارحانہ تھا وہ حصول اقتدارکےلئے بیتاب بے قرار تھے۔ آج کا پاکستانی پوچھتا ہے کہ 1970ءکے انتخابات میں مشرقی پاکستان میں اپنے امیدوار کھڑے کیوں نہیں کئے ۔
یہاں ہم وہاں تم ” کا نعرہ کیوں لگایا گیا
جو مشرقی پاکستان جائےگا ٹانگیں توڑ دوں گا
اپوزیشن میں نہیں بیٹھوں گا
دونوں حصوں کےلئے علیحدہ آئین بناؤ” جیسے الفاظ کیوں استعمال کئے ۔
شیخ مجیب کا کردار ہزار بار گھناؤنا سہی لیکن کیا مشرقی پاکستان کی عوام کو ساتھ لیکر چلنا ضروری نہیں تھا؟؟
بھٹو اور شیخ مجیب کے درمیان نئی حکومت کے قیام پر مذاکرات بغیر کسی نتیجے پر ختم ہوئے۔شیخ مجیب الرحمن نے بھارتی ایما پر احتجاج کا سلسلہ شروع کر دیا جیسا ماحول وہ چاہتا تھا وہ ماحول اسے تھالی میں سجا کر پیش کر دیا گیا بنگالی عوام کی ہمدردیاں ایک ایسے شخص نے جیت لی تھی جو کہ پاکستان کے بننے کے ساتھ ہی پاکستان کے بٹوارے میں جُت گیا تھا
جیسے کہ شیخ مجیب الرحمٰن کا برطانوی صحافی ڈیوڈ فراسٹ کو 16جنوری 1972 کو دیا گیا انٹرویو کہ
’’میں 1948 سے بنگلہ دیش کے قیام کےلیے کام کرتا رہا ہوں

شیخ مجیب اور بھٹو کے درمیان اقتدار کی رسہ کشی سے مشرقی پاکستان کے حالات تیزی کے ساتھ خراب ہونے لگے۔
شیخ مجیب کی عسکری ٹیم مکتی باہنی کے غنڈے گلیوں اور چوراہوں میں پھیل گئے
ڈیلی ٹیلیگراف کے مطابق سابقہ مشرقی پاکستان میں مکتی باہنی کے اراکین کی تعداد ڈیڑھ لاکھ تک پہنچ گئ تھی جو کہ تربیت یافتہ بھارتی فوجی تھے
مکتی باہنی میں مقامی بنگالی گوریلوں کی تعداد محض 20 فی صد تھی جب کہ اس عسکری ونگ کے 80 فی صد ارکان کا تعلق بھارت سے تھا۔ جنھیں مغربی بنگال سے بلایا گیا تھا چونکہ شکل و صورت اور رہن سہن میں یہ مقامی بنگالیوں سے زیادہ مختلف نہیں تھے۔ اس لیے یہاں کے معاشرے میں اس طرح گھل مل گئے تھے کہ ان کی شناخت کرنا مشکل تھی۔
مکتی باہنی کے اراکین کی تخریب کارانہ سرگرمیوں نے پورے صوبے کے نظام کو مفلوج کر کے رکھ دیا جس سے ڈھاکہ کا انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل تک محفوظ نہیں تھا۔
انھوں نے نہ صرف بجلی گھروں، تعلیمی اداروں ریلوے، صنعتوں، پلوں، ایندھن ڈپوؤں کو نشانہ بنایا، بحری جہازوں کو بارودی سرنگوں سے اڑایا بلکہ کئی بینکوں اور گوداموں کو بھی لوٹ لیا۔
اس دوران بھارت اور روس کا زرائع ابلاغ اسے دنیا کے سامنے پاکستان کے مظالم کے طور پر پیش کرنے لگا
اس وقت پاکستان کے انگریزی میڈیا کا بہت بڑا حصہ بھی کمیونسٹوں پر مشتمل تھا، جن کی ہمدردیاں عوامی لیگ کے ساتھ تھیں اور اسے بد قسمتی ہی کہیے کہ یہ بھارتی پروپیگنڈے میں بہہ کر اپنے ہی گھر کو مطعون کیے جا رہے تھے۔
کچھ پراپگنڈہے میں بہہ کر اور کچھ امن و امان کی صورتحال کے پیش نظر لاکھوں بنگالی انڈیا کی طرف ہجرت کر گئے جس کا بھارت نے عالمی سطح پر فائدہ اٹھایا بھارت ایک طرف عالمی سطح پر مکتی باہنی کی طرف سے کئے گئے مظالم کو پاکستان کے سر منڈتا تو دوسری جانب جدید اسلحہ اور فنڈنگ مکتی باہنی کو پہنچاتا
شیخ مجیب کی جانب سے یہ دو ٹوک احکامات تھے کہ اردو بولنے والوں اور ایسے بنگالیوں کو چن چن کر نشانہ بنایا جائے جو اپنے دل میں مغربی پاکستان کے لیے ذرا برابر بھی ہمدردی رکھتے ہوں۔
1947ء میں مشرقی پاکستان آنے والے مسلمان جو آسام، یوپی اور سی پی ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئے وہ روز اول سے دوسرے درجے کے شہری بنے مشرقی پاکستان میں زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ بہاری کہلاتے ہیں،انہوں نے 1971ء میں بہت برے دن دیکھے۔ بنگلہ دیش کے قیام کے دوران ان کا بے دریغ قتل عام ہوا اور انہیں پاکستان سے محبت کی ایسی کڑی سزائیں دی گئی کہ واقعات سن کر روح تک کانپ اٹھتی ہے
مکتی باہنی نے ان مہاجر بستیوں کو ٹھکانے لگانے کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی کی ۔ یہاں باقاعدہ مزبح خانے تھے جو تین قسم کی جھونپڑوں پر مشتمل تھے ، مردوں، عورتوں اور بچوں کے قتل کے لئے الگ الگ جھونپڑیاں تھیں

انسائیکلو پیڈیا آف وائیلنس پیس اینڈ کانفلیکٹ کے صفحہ 64 کے مطابق مکتی باہنی نے ایک لاکھ پچاس ہزار بہاری قتل کئیے

جبکہ 1951 کی مردم شماری کے مطابق مشرقی پاکستان میں بہاریوں کی تعداد 6 لاکھ 71 ہزار تھی جبکہ ان میں سے قریباً دو لاکھ بہاروں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا

مکتی باہنی جس میں بھارتی فوج کے ساتھ ساتھ شیخ مجیب کے ظالم ترین ساتھی بھی شامل تھے انھوں نے وہشت وظلم کی وہ داستانیں رقم کی کہ تاریخ میں ایسے اجتماعی قتل کی نظیر نہیں ملتی
بہاریوں کے پورے گاؤں کے گاؤں صفحہ ہستی سے مٹا دیئے گئے۔
برہمن باڑیہ میں بہاری عورتوں کی 300لاشیں ملیں، ایک بچے کا سر کاٹ کر کیل سے دیوار میں ٹانگ دیا گیا تھا۔ ان کے مرد پہلے ہی ذبح کر دیئے گئے تھے۔
میمن سنگھ میں بچوں کو مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے مردہ باپوں کی قبریں کھودیں۔ چٹاگانگ میں ایسٹ پاکستان ریلوے کے سینئر ارکان کو ایک مذبح میں لے جا کر قتل کر دیا گیا۔
دیناج پور میں مغربی پاکستان کے کیپٹن اور فوج کے سپاہیوں کو اذیتیں دے کر قتل کیا گیا۔ فوجیوں کے بال بچوں کو بھی قتل کر دیا گیا۔ میرپور اورمحمد پور ڈھاکہ کے علاقے میں بہاریوں کی بستی جلا دی گئی زندہ انسانوں کو کوئلہ بنا دیا گیا
صرف بہاروں کو ہی نہیں اس کے ساتھ ساتھ اردو بولنے والے پاکستانیوں کو بھی ظلم و ستم کا نشانہ بنایا گیا
3 اور 4 مارچ 1971ء کی درمیانی شب چٹاگانگ کی فیروزشاہ کوئلہ گراؤنڈ، جہاں اردو بولنے والے رہتے تھے، اسے عوامی لیگ کے کارکنوں نے چاروں طرف سے گھیر کر 700 گھروں کو آگ لگا دی۔
جو بھی آگ سے بچنے کے لئے باہر نکلتا، اسے گولی مار دی جاتی۔ اس طرح صرف ایک ہی جگہ پر دو ہزار سے زیادہ افراد کو زندہ جلا دیا گیا۔
میمن سنگھ کی ایک مسجد میں پندرہ سو ایسی غیر بنگالی عورتوں نے پناہ لی ہوئی تھی جن کے شوہروں کو ذبح کرکے مارڈالا گیا تھا۔ ان عورتوں کو بھی اذیتیں دے کر بے آبرو کیا گیا خصوصی طور کٹاری نما چاقوئوں سے ان کی چھاتیوں کو کاٹا گیا۔
یاسمین سائیکیا کی کتاب ʼخواتین، جنگ اور بنگلہ دیش کی تشکیلʼ، کے مطابق مکتی باہنی نے ہزاروں بہاری خواتین کی عصمت دری کی اور تشدد کا نشانہ بنایا ( حوالہ ڈیوک یونیورسٹی پریس؛ صفحہ 41)۔

مکتی باہنی کا رہنما قادر صدیقی جس نے 17 ہزار گوریلوں پر مبنی اپنی ایک الگ دہشت گرد فوج بنا رکھی تھی، اور جو براہ راست شیخ مجیب الرحمن سے حکم لیتا تھا اس کے بارے میں
جنوبی ایشیا کے نامہ نگار لارنس لفسشلتز لکھتے ہیں مکتی باہنی کے رہنما عبدالقادر صدیقی نے خود غیر بنگالیوں کو سنگینیں گھونپ گھونپ کر قتل کیا اور اس پورے واقعے کی غیر ملکی فلم ساز عملے نے فلم بندی کی جسے عبدالقادر صدیقی نے یہ سارا منظر دیکھنے کے لیے بلایا تھا۔

یہی درندہ بعد میں نہ صرف بنگلہ دیش کی قومی اسمبلی کا رکن بھی رہا، بلکہ اسے بنگلہ دیش حکومت کی طرف سے سرکاری اعزاز ” بر اتم“ سے بھی نوازا گیا
بچوں کو ان کے والدین کے سامنے زیبح کر دیا گیا ۔ لوگوں کی آنکھیں تک نکال پھینکی گئیں۔چٹا گانگ ، کھلنا اور جیسور میں بیس ہزار غیر بنگالیوں کی لاشیں پائی گئیں جو کہ شلوار قمیض میں ملبوس تھے
پاکستان جمہوری پارٹی کے نائب صدراور پاکستان کے سابق وزیر تجارت مولوی فرید احمدکو ڈھاکہ میں نظر بند کیا گیا۔
پہلے انہیں کوڑے مارے گئے،پھر ان کی جلد پر تیز بلیڈوں سے کٹ لگائے گئے،اور زخموں پر نمک پاشی کی گئی،اس وحشیانہ سلوک کے بعد انہیں موت کی نیند سلا دیا گیا،جوش و جنون میں ان کی لاش کو مسخ کرکے اس کی بے حرمتی بھی کی گئی۔“
یاد رہے کہ بنگلہ دیش کے 1972ء کے دستور میں مکتی باہنی کی چھتر چھایہ تلے قتل و غارت گری کرنے والے عوامی لیگ کے رہنماؤں کو یہ تحفظ بھی دیا گیاکہ اس آزادی کی تحریک میں حصہ لیتے وقت ’’آزادی کے سپاہیوں‘‘ نے جو کچھ بھی کیا ہے، اسے کہیں چیلنج نہیں کیا جا سکے گا۔ گویا ہر قسم کے قتل و غارت کے جرائم کو دستوری تحفظ اور عام معافی دے دی گئی
جاری ہے….
حجاب رندھاوا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Skip to toolbar