مخصوص نشستوں کا کیس: عمران خان بطور وزیراعظم بھی الیکشن کمیشن پر اثر انداز ہورہے تھے، چیف جسٹس

Share

سپریم کورٹ آف پاکستان میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عسیٰ نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی اگر اب بھی پولیٹیکل پارٹی کا وجود رکھتی ہے تو انھوں نے دوسری جماعت میں کیوں شمولیت اختیار کی، عمران خان بطور وزیراعظم بھی الیکشن کمیشن پر اثر انداز ہو رہے تھے، انتخابات کرانے کے لیے پی ٹی آئی کو سال بھر کی تاریخ دی گئی۔چیف جسٹس کی سربراہی میں 13 رکنی فل کورٹ سماعت کر رہا ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی طبیعت ناسازی کے باعث فل کورٹ کا حصہ نہیں ہیں۔دوران سماعت وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ سب سے کچھ عدالتی فیصلوں کا حوالہ دینا چاہتا ہوں، عدالتی فیصلوں میں آئینی تشریح کیلئے نیچرل حدود سےمطابقت پرزوردیا گیا۔انہوں نے مزید کہا کہ آزاد امیدوارکسی بھی سیاسی جماعت میں شامل ہوسکتے ہیں، الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعت کی غلط تشریح کی، الیکشن کمیشن نےمخصوص نشستوں سے متعلق آئین کونظراندازکیا۔جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ غلط ہے توآئین کی درست وضاحت کردیں، الیکشن کمیشن کوچھوڑدیں اپنی بات کریں، آئین وقانون کے مطابق بتائیں کہ سنی اتحاد کونسل کوکیسے مخصوص نشستیں مل سکتی ہیں۔جسٹس عرفان نے ریمارکس دیے کہ جونشستیں جیت کرآئےان کومخصوص نشستیں ملنی چاہیں؟ سنی اتحاد کونسل نےالیکشن نہیں لڑا تو نشستیں جیتنے والی بات ختم ہوگئی۔جسٹس اطہرمن اللہ نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کو سیاسی جماعت تسلیم کیا، انتحابی نشان واپس لینے سے سیاسی جماعت ختم تو نہیں ہوجاتی۔دوران سماعت چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی اگر اب بھی پولیٹیکل پارٹی کا وجود رکھتی ہے تو انھوں نے دوسری جماعت میں کیوں شمولیت اختیار کی۔انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ اگر اس دلیل کو درست مان لیا جائے تو آپ نے دوسری جماعت میں شمولیت اختیار کرکے خودکشی کیوں کی، یہ تو آپکے اپنے دلائل کے خلاف ہے، آزاد امیدوار پی ٹی آئی میں رہ جاتے توآج کوئی مسئلہ نہ ہوتا۔جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ جس نےانتخابات نہیں لڑا، نشستیں کیسےمل سکتی ہیں؟ جسٹس مظہر نے ریمارکس دیے کہ آزادامیدواروں کی شمولیت کےبعدان نشستوں کوجوائن کرنا کہیں گے؟دوران سماعت جسٹس جسٹس اطہرنے ریمارکس دیے کہ رجسٹرڈ سیاسی جماعت کیلئےایک ہی انتخابی نشان پرالیکشن لڑنا شرط نہیں۔ جسٹس شاہد وحید نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن کے رول 92کی ذیلی شق2 پڑھیں۔جسٹس منیب اخترنے ریمارکس دیے کہ آزاد امیدارالیکشن کمیشن نے قراردیا، الیکشن کمیشن کی رائے کا اطلاق ہم پرلازم نہیں، پارلیمانی جمہوریت کی بنیاد سیاسی جماعتیں ہیں، الیکشن کمیشن نےپی ٹی آئی امیدواروں کوآزادامیدوارقراردیا، یہ تو بہت خطرناک تشریح ہے۔جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ تمام امیدوار پی ٹی آئی کے تھے حقائق منافی ہیں، پی ٹی آئی نظریاتی کے سرٹیفکیٹس جمع کرواکرواپس کیوں لیے۔دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم یہ نہیں سنیں گےالیکشن کمیشن نےپی ٹی آئی سے زیادتی کی، ہم آئین و قانون کے مطابق بات سنیں گے، آپ سنی اتحاد کونسل کے وکیل ہیں پی ٹی آئی کے نہیں، آپ کے پی ٹی آئی کے حق میں دلائل مفادکےٹکراؤمیں آتا ہے، سنی اتحاد کونسل سے توانتحابی نشان واپس نہیں لیاگیا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ پی ٹی آئی کےصدرتھے انھوں نے انتخابات کی تاریخ کیوں نہیں دی، پی ٹی آئی نے توانتخابات رکوانے کی کوشش کی تھی، پی ٹی آئی نےلاہورہائیکورٹ میں درخواست دائرکی تھی، بانی پی ٹی آئی وزیراعظم تھے انھوں نے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرائے۔انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ کسی پرایسے انگلیاں نہ اٹھائیں، سپریم کورٹ کا تین رکنی بنچ تھا جوانتخابات نہیں کروا سکا، ہم نے انتخابات کی تاریخ دلوائی تھی۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے ریمارکس دیے کہ آئین ہمارا زیادہ پرانا نہیں ہے، ہم اتنے ہوشیارہیں کہ آئین سے ہٹ کراپنی اصطلاح نکال لیں، مخصوص نشستوں سے متعلق آئین واضح ہے، آئین سے ہٹ کر کوئی بھی جج فیصلہ نہیں دے سکتا۔وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ اس ملک میں متاثرہ فریقین کیلئےکوئی چوائس نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کیا کہ سیاسی باتیں نہ کریں، ایسےعظیم ججزبھی گزرے، جنھوں نے پی سی اوکےتحت حلف اٹھانےسےانکارکیا، صرف آئین پر رہیں۔وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ ایک رات پہلے انتخابی نشان لے لیا گیا تھا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ سنی اتحاد کونسل کی نمائندگی کر رہے ہیں، سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان ہے کیا۔ وکیل سنی اتحاد کونسل نے بتایا کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان گھوڑا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سنی اتحاد کونسل کا انتخابی نشان تو لیا ہی نہیں گیا۔ جسٹس جمال نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے امیدواروں کو آزاد قرار دیا تو اپیل کیوں دائر نہیں کی۔وکیل سنی اتحاد کونسل نے کہا کہ اس سوال کا جواب سلمان اکرم راجہ دیں گے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ رولز کے زریعے آئین کو کنٹرول نہیں کیا جا سکتا، کسی کی مرضی پر عمل نہیں ہو سکتا، اس ملک کی دھجیاں اسی لیے اڑائی گئیں کیونکہ آئین پرعمل نہیں ہوتا، میں نے حلف آئین کے تحت لیا ہے، پارلیمنٹ سے جاکر آئین میں ترمیم کرا لیں۔جسٹس جمال نے ریمارکس دیے کہ الیکشن ایکٹ سیکشن67 کہتاہے آزاد امید وار وہ ہے جس کو پارٹی ٹکٹ نہیں، الیکشن کمیشن امیدوارکےدرمیان اپنااختیارکیسے استعمال کرسکتا ہے؟ چیف جسٹس نے ریمارکد یے کہ ہم یہ نہیں دیکھیں گے الیکشن کمیشن نے کیا کیا۔چیف جسٹس نے استفسار کی اکہ پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی انتخابات کیوں نہیں کرائے؟فیصل صدیقی نے جواب دیا کہ بلےکےانتخابی نشان کیس کی نظرثانی زیرالتواہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جب آپ کا دل کرتا ہے اس بارے میں بات کرلیتے ہیں، ہمیں بتایاکیوں نہیں بلےکےانتخابی نشان سےمتعلق نظرثانی زیرالتواہے؟دوران سماعت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ انتخابات کس نےکرائے، الیکشن رکوانے کی کوشش پی ٹی آئی نے کی، عمران خان بطور وزیراعظم بھی الیکشن کمیشن پر اثر انداز ہو رہے تھے، انتخابات کرانے کے لیے پی ٹی آئی کو سال بھر کی تاریخ دی گئی، یا تو پھر قانون کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں۔واضح رہے کہ پشاور ہائی کورٹ نے مخصوص نشستوں سے متعلق انتخابات سے قبل فہرست جمع نہ کروانے پر سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہ دینے کے بارے میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔الیکشن کمیشن نے اس ضمن میں جواب سپریم کورٹ میں جمع کروا دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہیں دی جا سکتیں کیوں کہ مخصوص نشتوں کی فہرست جمع کرانے کی آخری تاریخ 24 جنوری تھی لیکن سنی اتحاد کونسل نے مخصوص نشستوں کے لیے فہرست جمع نہیں کرائی۔یاد رہے کہ جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سنی اتحاد کونسل کی طرف سے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل پر پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کر دیا تھا اور اس اپیل کی سماعت کے لیے لارجر بینچ تشکیل دینے سے متعلق یہ معاملہ چیف جسٹس کو بھجوا دیا تھا۔پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد مخصوص نشستیں حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کو مل گئی تھیں تاہم اس فیصلے کی معطلی کے بعد حکمران اتحاد پارلیمنٹ میں دو تہائی اکثریت سے محروم ہو گئی تھی۔پاکستان تحریک انصاف کے امیدوار انتخابی نشان نہ ہونے کی وجہ سے آزاد حثیت میں الیکشن جیتے تھے جس کے بعد انھوں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی تھی۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Skip to toolbar