
سپریم کورٹ، نوے روز میں انتخابات کے انعقاد کا معاملے پر سماعت
الیکشن کمیشن حکام سپریم کورٹ میں موجود ہے اور سماعت جاری ہے
عدالت نے پیپلزپارٹی کو مقدمہ میں فریق بننے کی اجازت دے دی ہے انتخابات 90 روز میں کروائے جائیں،وکیل علی ظفر
آپ کی 90 دنوں میں انتخابات کی استدعا تو اب غیر موثر ہو چکی،چیف جسٹس
ہم بنیادی انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں، وکیل علی ظفراس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا،چیف جسٹس
عوام کی رائے جاننے سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے،جسٹس اطہر من اللہ
اب آپ صرف انتخابات چاہتے ہیں،چیف جسٹس کا پی ٹی آئی وکیل سے مکالمہ
جی ہم انتخابات چاہتے ہیں،وکیل علی ظفرکیا اس کی کوئی مخالفت کرے گا،چیف جسٹس
میرا نہیں خیال کوئی مخالفت کرے گا،چیف جسٹس
کیا آپ مخالفت کریں گے، چیف جسٹس کا اٹارنی جنرل سے استفساراٹارنی جنرل کا انکار میں جواب آرٹیکل 58اور 224 پڑھا جا سکتا ہےانتخابات نہیں ہوں گے تو نہ پارلیمنٹ ہوگی نہ قانون بنیں گےانتخابات کی تارہخ دینا اور شیڈول دینا دو الگ چیزیں ہیںالیکشن کی تاریخ دینے کا معاملہ آئین میں درج ہے، وکیل پی ٹی آئی علی ظفر
صدر اسمبلی تحلیل کرے تو 90دن کے اندر کی الیکشن تاریخ دے گا، وکیل علی ظفر
کیا یہ تاریخ دینے کیلئے صدر کو وزیراعظم سے مشورہ لینا ضروری ہے،چیف جسٹس
ضروری نہیں ہے صدر کا اپنا آئینی فریضہ ہے وہ تاریخ دے،وکیل علی ظفر
کیا صدر نے الیکشن کی تاریخ دی ہے،جسٹس اطہر من اللہ
میری رائے میں صدر نے تاریخ دیدی ہے،وکیل علی ظفر
الیکشن کمیشن نے کہا یہ صدر کا اختیار نہیں،وکیل علی ظفر
کیا وہ خط دیکھ سکتے ہیں جس میں صدر نے تاریخ دی ،چیف جسٹس
صدر نے تاریخ دینے کا حکم دینا ہے، حکومت نے اسے نوٹیفائی کرنا ہے، جسٹس اطہر من اللہ
صدر نے جس خط میں تاریخ دی وہ کہاں ہے،چیف جسٹس
علی ظفر نے صدر کا خط پڑھ کر سنا دیااسمبلی 9اگست کو تحلیل ہوئی اس پر تو کسی کا اعتراض نہیں؟ چیف جسٹس
جی کسی کا اعتراض نہیں،وکیل علی ظفر
وزارت قانون نے رائے دی کہ صدر مملکت تاریخ نہیں دے سکتے90 دنوں کا شمار کیا جائے تو 7 نومبر کو انتخابات ہونے ہیں، وکیل علی ظفر
صدر مملکت کو الیکشن کمیشن کو خط لکھنے میں اتنا وقت کیوں لگا،جسٹس اطہر من اللہ کیا صدر مملکت نے سپریم کورٹ سے رائے لینے کیلئے ہم سے رجوع کیا،
چیف جسٹس نہیں ایسا نہیں ہے،علی ظفر پھر آپ خط ہمارے سامنے کیوں پڑھ رہے ہیں،صدر کے خط کا متن بھی کافی مبہم ہے، چیف جسٹس
صدر نے جب خود ایسا نہیں کیا تو وہ کسی اور کو یہ مشورہ کیسے دے سکتے ہیں،چیف جسٹس
علی ظفر کیا آپ کہہ رہے ہیں صدر نے اپنا آئینی فریضہ ادا نہیں کیا،چیف جسٹس
9 اگست کو اسمبلی تحلیل ہوئی اور صدر نے ستمبر میں خط لکھا،چیف جسٹس
آئین کی کمانڈ بڑی واضح ہے صدر نے تاریخ دینا تھی اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے، جسٹس اطہر من اللہ اختلاف کرنے والے بھلے اختلاف کرتے رہیں، چیف جسٹس
ہم اس معاملہ کا جوڈیشل نوٹس بھی لے سکتے ہیں،چیف جسٹس
آخری دن جا کر خط نہیں لکھ سکتے،چیف جسٹس
میری نظر میں صدر نے الیکشن کی تاریخ تجویز کر دی،وکیل علی ظفر
آپ ہم سے اب کیا چاہتے ہیں،چیف جسٹسکیا آپ چاہتے ہیں کہ ہم صدر کو ہدایت جاری کریں کہ آپ تاریخ دیں،چیف جسٹس
صدر کہتے ہیں فلاں سے رائے لی فلاں کا یہ کہنا ہے،چیف جسٹس
کیا اب یہ عدالت صدر کے خلاف رٹ جاری کر سکتی ہے،چیف جسٹس
آرٹیکل 98 بہت واضح ہے اس پر اس عدالت کا کردار کہاں آتا ہے،جسٹس اطہر من اللہ
آپ کے مطابق تاریخ دینا صدر کا اختیار ہے،چیف جسٹس
پھر آپ بتائیں کہ کیا اس عدالت کو بھی تاریخ دینے کا اختیار ہے،چیف جسٹس
اگر صدر نے بات نہ مانی تو ہم انہیں توہین عدالت کا نوٹس جاری کریں گے،چیف جسٹس