
وفاقی حکومت کی جانب سے توشہ خانہ کے تحائف کے حوالے سے جاری کردہ فہرست کے مطابق سیاستدانوں نے جہاں بہتی گنگا میں بلا خوف و خطر ہاتھ دھوئے وہی پر بیوروکریسی بھی کسی سے پیچھے نہیں رہی، جاری کردی سرکاری مبہم تفصیلات کے مطابق درجنوں قیمتی اشیاء جن کی مالیت لاکھوں روپے میں تھی ان کو چند ہزار میں سرکاری افسران نے خود کو ہی نیلام کر دیا تاہم ستم ظریفی تو یہ ہے کہ جاری تفصیلات میں یہ تحریر بھی نہیں کیا گیا کہ ان قیمتی اشیاء کو انتہائی کوڑیوں کے بھاؤ خریدنے والا کون سا سرکاری افسر ہے، ان تمام قیمتی اشیاء کی سرکاری قیمت تحفہ کی مارکیٹ ویلیو سے صرف 10 سے 20 فیصد مقرر کی گئی۔446 صفحات پر مشتمل فہرست کے مطابق سب سے پہلی “نیلامی” 20 فروری 2002ء نے 33 پی کف لنک سیٹ کی ہوئی جس کی کوئی سرکاری قیمت کا تعین نہیں کیا گیا اور اس کو 150 روپے میں نیلام کرکے کسی کے حوالے کر دیا گیا.دوسری نیلامی چیف کوآرڈینیٹنگ افسر سارک یعقوب مجید کو ملنے والا تحفہ جو ان کو بنگلہ دیش کے دورے میں ملا اس کی سرکاری قیمت 300 روپے لگائی گئی اور اس کو 1150 میں نیلام کردیا گیا۔ایک قیمتی شاٹ گن رائفل جوکہ 30 اپریل 2002 کو ایک وفاقی وزیر کو غیر ملکی دورے پر تحفے میں دی گئی اس کی سرکاری قیمت 6 ہزار 800 روپے مقرر کی گئی اور اس کو 14 ہزار میں نیلام کر دیا گیا (اس وقت اس ہتیار کی قیمت کم از کم دس لاکھ تھی)۔ اسی برس جون کے مہینے میں وزارت خارجہ کے دفتر میں موجود نامعلوم قیمتی تحائف جو فہرست میں 136 سے 144 پر تحریر ہیں ان کو 25 ہزار میں نیلام کر دیا گیا۔ یوں سیاست دان اور بیوروکریسی نے قومی نوادرات کو مال مفت دل بے رحم کی طرح لوٹا ہے