
سپریم جوڈیشل کونسل نے مستعفی جج مظاہر اکبر نقوی کے خلاف شکایات پر کارروائی کے دوران ان کے بیٹوں کو بطور گواہ سمن نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔کونسل نے اٹارنی جنرل کو مظاہر نقوی کے بیٹوں کی حد تک نوٹسز واپس لینے کی ہدایت بھی کی ہے۔سپریم جوڈیشل کونسل کا اوپن اجلاس چیئرمین سپریم جوڈیشل کونسل قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں ہوا۔کارروائی کے دوران مستعفی جج مظاہر نقوی کو سرکاری پلاٹس کی الاٹمنٹ سے متعلق 4 گواہان کے بیانات قلمبند کیے گئےسپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی میں آٹھویں گواہ کاروباری شخصیت صفدرخان نے حلفیہ بیان میں کہا ہے کہ میں نے مظاہر نقوی سے گلبرگ 3 لاہور والا گھر 13 کروڑ میں خریدا، میں نے گھر خریدنے کی رقم 3 حصوں میں ادا کی، میں نے5-5 کروڑ کے 2 پے آرڈر اور 3 کروڑ روپے کیش گھر کی قیمت کی مد میں ادا کیے۔چیئرمین سپریم جوڈیشن کونسل قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ آپ تو کاروباری شخصیت ہیں، جسٹس ریٹائرڈ مظاہر نقوی کو کیسے جانتے تھے؟گواہ صفدرخان نے جواب دیا کہ میرا ان سے تعلق تھا، دوستی تھی۔چیئرمین سپریم جوڈیشن کونسل قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ تعلق کیا ہوتا ہے، ایک جج سے آپ کی دوستی کیسے ہو سکتی ہے؟گواہ صفدرخان نے جواب دیا کہ میں 6، 7 سال سے مظاہر نقوی کو جانتا تھا، انہوں نے گھر بیچنا چاہا تو میں نے خرید لیا۔چیئرمین سپریم جوڈیشن کونسل قاضی فائز عیسیٰ نے ان سے دریافت کیا کہ آپ کا کاروبار کیا ہے؟گواہ صفدرخان نے بتایا کہ میں پراپرٹی کی خرید و فروخت کا کاروبار کرتا ہوں، میں نے گھر خریدنے کے بدلے 5 کروڑ روپے مظاہر نقوی کی طرف سے چوہدری شہباز کو دیے۔چیئرمین سپریم جوڈیشن کونسل قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ وہ 5 کروڑ روپے تو لاہور اسمارٹ سٹی نے ادا کیے تھے۔گواہ صفدرخان نے جواب دیا کہ لاہور اسمارٹ سٹی نے میرے ہی 5 کروڑ روپے چوہدری شہباز کو ادا کیے۔چیئرمین سپریم جوڈیشن کونسل قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہوشیاری نہ کریں، بتائیں کہ لاہور اسمارٹ سٹی آپ کی طرف سے 5 کروڑ روپے کیسے دے گی؟گواہ صفدرخان نے بتایا کہ لاہور اسمارٹ سٹی نے مجھ سے کئی سو کنال زمین خریدی، جس کا ان پر قرض تھا۔چیئرمین سپریم جوڈیشن کونسل قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ لاہوراسمارٹ سٹی نے پیسے براہ راست آپ کو کیوں نہیں دیے؟ کل آپ دعویٰ کر دیں کہ لاہور اسمارٹ سٹی نے آپ کو 5 کروڑ روپے نہیں دیے تو کیا ہو گا؟گواہ صفدرخان نے کہا کہ مجھے اندازہ نہیں تھا کہ میرے ساتھ یہ ہو گا اور مجھے یہاں آ کر جواب دینا ہو گا، مظاہرنقوی نے مجھے کہا کہ کسی کو ادائیگی کرنی ہے تو میں نے کر دی، میں نے کمپنی سے 5 کروڑ روپے کی ادائیگی کی کوئی رسید نہیں لی، مظاہر نقوی کے نام پر لاہور اسمارٹ سٹی کی طرف سے ادائیگی جون 2022ء میں کی، میں نے اس ادائیگی کو ٹیکس ریٹرنز میں ظاہر نہیں کیا، میں نے 3 کروڑ روپے مظاہر نقوی کے بیٹے مصطفیٰ نقوی کو کیش میں دیےسابق جج مظاہر نقوی کے خلاف نویں گواہ ڈی جی فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائزہاؤسنگ سوسائٹی ظفر اقبال نے سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے حلفیہ بیان دیا ہے۔حلفیہ بیان میں گواہ ظفر اقبال کا کہنا ہے کہ مظاہر نقوی نے فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ سوسائٹی میں 2 پلاٹ اور 1 اپارٹمنٹ لیا، انہوں نے2017ء میں فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائزہاؤسنگ سوسائٹی میں ایک کنال کا پلاٹ لیا، مظاہر نقوی کی طرف سے اب تک 60 لاکھ روپے میں سے 30 لاکھ روپے کی ادائیگی کی گئی۔چیئرمین سپریم جوڈیشن کونسل قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ سوسائٹی نے ایک شخص کو 2 پلاٹس کیسے دیے؟نویں گواہ ظفر اقبال نے جواب دیا کہ ایک پلاٹ ہم نے، دوسرا ہمارے پارٹنر سپریم کورٹ بار نے مظاہر نقوی کو دیا، سپریم کورٹ بار نے بذریعہ قرار داد بتایا کہ ان کے دیے گئے پلاٹس پر سرکاری قواعد لاگو نہیں ہوں گے، دوسرے پلاٹ کی مظاہر نقوی نے جو رقم دی اس کا ریکارڈ سپریم کورٹ بار کے پاس ہے۔حلفیہ بیان میں نویں گواہ ظفر اقبال نے کہا کہ مظاہر نقوی نے فیڈرل گورنمنٹ ایمپلائز ہاؤسنگ سوسائٹی میں ایک اپارٹمنٹ لیا، 7 اگست 2020ء کو خریدے گئے اس اپارٹمنٹ کی قیمت 99 لاکھ روپے ہے، جس میں سے 12 لاکھ روپے دیے گئے، مظاہر نقوی کا تیسرا پلاٹ سپریم کورٹ کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی جی 17 میں ہے، سپریم کورٹ کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی کے پلاٹ کی تفصیلات ہمیں معلوم نہیںسپریم جوڈیشنل کونسل میں دسویں اور گیارہویں گواہ متروکہ وقف املاک بورڈ لاہور کے زونل ایڈمنسٹریٹرز نے حلفیہ بیان میں کہا کہ دیال سنگھ مینشن لاہور میں تصدق نقوی ولد مظاہر نقوی نے 52 ہزار روپے کرائے پر 10 مرلے کا آفس لیا۔سپریم جوڈیشنل کونسل کے چیئرمین قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ یہ تو لاہور مال روڈ پر مہنگا ترین کمرشل ایریا ہے، اتنے کم کرائے پر آفس کیسے مل گیا؟دسویں گواہ نے جواب دیا کہ کسی اور کو کرائے پر دیا تھا اور مظاہر نقوی کے بیٹے نے ان سے لیا۔گیارہویں گواہ نے بیان میں کہا کہ دیال سنگھ مینشن میں دکانوں کے کرائے کا کمرشل ریٹ ڈیڑھ لاکھ روپے سے زیادہ ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ ہم نے صرف اتنا سوال کیا ہے کہ آپ نے کم کرائے پر پراپرٹی جج کے بیٹے کو کیسے دی؟گیارہوں گواہ نے جواب دیا کہ متروکہ وقف املاک بورڈ نے کرایہ بڑھانے کا فیصلہ کیا تو تصدق نقوی نے عدالت میں چیلنج کر دیا، لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر وفاقی سیکریٹری بین المذاہب ہم آہنگی نے کرایہ مزید کم کردیا تھا، متروکہ وقف املاک بورڈ نے سیکریٹری کا فیصلہ چیلنج نہیں کیادورانِ سماعت چیئرمین سپریم جوڈیشل کونسل قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس میں کہا کہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ ہم ٹیکس کے پیسے سے یہ کارروائی کرتے ہیں جہاں کونسل کی کارروائی کے لیے 2 ججز دوسرے صوبوں سے آتے ہیں، ادراک ہے کہ سپریم کورٹ کے بینچز میں یہ معاملہ زیرِ التواء ہے، سپریم کورٹ نے جوڈیشل کونسل کی کارروائی پر کوئی اسٹے نہیں دے رکھا، یہ معاملہ اگر لٹکا رہتا تو ہم پر تنقید ہوتی کہ کارروائی ختم کیوں نہیں کی۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ کچھ دیگر ججز کے خلاف بھی شکایات ہیں، ان کو اِن کیمرا اجلاس میں دیکھا جائے گا، موجودہ کارروائی جج کی درخواست پر اوپن ہوئی، مظاہر نقوی کو معلوم ہو گا کہ یہاں کیا کارروائی ہو رہی ہے، مظاہر نقوی کسی گواہ پر جرح کرنا چاہیں یا جواب دینا ہے تو آ سکتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی سپریم کورٹ کے مستعفی جج مظاہر نقوی کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دی گئی