
تمیمی کے قلم سے ____________!!! مائنس ون کی باز گشت کوئی نئی نویلی بات نہیں بلکہ اس کی تاریخ صدیوں پرانی ہے اور تاریخ کبھی کسی کو معاف نہیں کرتی، اپریل 1945 کے بعد ہٹلر کی زندگی کا واحد مقصد اپنی موت کی تیاری کرنا تھا۔ 25 اپریل کو انھوں نے اپنے باڈی گارڈ ہینز لنج کو فون کیا اور کہا ’میں نے خود کو گولی مار لی ہے۔ تم میری لاش کو چانسلر کے باغ میں لے جاؤ اور اسے آگ لگا دو۔ میری موت کے بعد کوئی مجھے نہ دیکھے اور نہ ہی مجھے پہچان پائے۔باڈی گارڈ کو انھوں نے مزید تاکید کی کہ ’اُس کے بعد تم میرے کمرے میں واپس جاؤ اور میری وردی، میرے کاغذات، ہر وہ چیز جو میں نے استعمال کی ہے اسے اکٹھا کرو اور اس سب کو آگ لگا دو۔ صرف انٹن گراف کی “فریڈرک دی گریٹ” کی آئل پینٹنگ کو ہاتھ مت لگانا۔ یہ میرا ڈرائیور میری موت کے بعد برلن سے بحفاظت باہر لے جائے گا۔اپنی زندگی کے آخری ایام میں ہٹلر 50 فٹ زیر زمین بنائے گئے ایک بنکر میں رہتے تھے۔ وہ چانسلر کے باغ صرف اس وقت جاتے جب انھیں اپنے پیارے کتے”بلونڈی” کو ٹہلانا ہوتا، آخری دنوں میں ہٹلر کی حالت کچھ ایسی تھی کہ اسے صرف بوسہ دیا جا سکتا تھا۔ اُن کا سارا جسم کپکپاتا اور اُن کے کندھے جھکے ہوئے تھے۔ اس کے کپڑے گندے تھے ہینز لنج، جو دروازے کے باہر کھڑا تھا، نہیں جانتا تھا کہ ہٹلر کب خود کو گولی مار سکتا ہے۔ اس نے بارود کی ایک ہلکی سے بو محسوس کی تھی ہٹلر کی ذاتی سیکریٹری بورمن نے ہٹلر کے کمرے کا دروازہ کھولنے کا اشارہ کیا۔ میں نے ہٹلر کا سر میز پر دیکھا۔ اس کا رنگ زرد پڑ چکا تھا، ہو سکتا ہے کہ اس نے مرتے وقت اپنا ہاتھ بڑھایا ہو جس سے اس کی طرف کا گلدان نیچے گر گیا اور ٹوٹ گیا تھا۔ہٹلر کی معشوقہ ایوا براؤن صوفے پر گری پڑی تھی، اس نے گہرے نیلے اور سفید رنگ کا لباس پہن رکھا تھا۔ ہٹلر کے سوانح نگار ایان کرشا لکھتے ہیں ’اس منظر کو ہٹلر کے آخری دنوں کے تمام ساتھیوں نے بنکر کے دروازے کے ذریعے دیکھا تھا۔ جب ان کی لاش کو آگ لگا دی گئی تو سب نے اپنے ہاتھ اٹھائے اور ’ہیل ہٹلر‘ کہا یعنی ہٹلر زندہ باد کا نعرہ لگایا اور بنکر واپس لوٹ گئے۔ اس وقت تیز ہوا چل رہی تھی۔یوں ایک انتہائی طاقتور شخص جسکی آنکھ کی جنبش سے سب کچھ بدل جاتا تھا اپنے بااعتماد ساتھیوں کی موجودگی میں اپنے کرتوتوں اور سنگین جرائم کی طویل فہرست کی پاداش میں “مائنس ون” ہوگیا. ہمارے ہاں مائنس ون فارمو لے کا مطلب صرف یہ لیا جاتا ہے کہ جو شخص آپ کی جماعت کا روح رواں ہے ، آپ کا سب سے اعلیٰ آدمی ہے اور عوام میں سب سے زیادہ مقبول ہے وہ ہمیں قبول نہیں ہے لہذا آپ اگر اُسے جماعت سے مائنس کر دیں تو ہمیں آپ کی جماعت قبول ہے۔حالانکہ مائنس ون. کی یہ defination کسی طور بھی درست نہیں کیونکہ تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو مائنس ون کے پیچھے جرائم کی ایک طویل فہرست کا ہونا ازحد لازم ہے، مائنس ون کی اصطلاح غالباً پہلی مرتبہ 1990ء میں بے نظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے دوران سننے میں آئی مگر در حقیقت پاکستان میں مائنس ون کا باقاعدہ آغاز ذوالفقار علی بھٹو سے نواز شریف تک کسی سے ڈھکا چھپا نہیں، جرائم، نااہلیوں اور قومی مفادات پر ذاتی مفادات کو ترجیح دینے کے کارنامے ان “مقبول ترین” رہنماؤں کی فہرست کو مذید طویل کرتے ہیں، انہیں کس طرح کرپشن، بدعنوانیوں اور اقرباء پروری کے الزامات وغیرہ کے بعد اپنے ہی بداعتماد ساتھیوں کی منصوبہ بندیوں سے مائنس ون کے فارمولے سے گزرنا پڑا، آج پھر ملک میں مائنس ون کی بازگشت بڑی سنجیدگی سے سنی اور سنائی جارہی ہے اور اس فارمولے کی Definition کو آج بھی ماضی کے سیاسی فارمولے مائنس ون کے تناظر میں لیا جاریا ہے کہ “عمران خان اپنی جماعت کا روح رواں ہے ، سب سے اعلیٰ آدمی ہے اور عوام میں سب سے زیادہ مقبول ہےجو کچھ طاقتور حلقوں کو قبول نہیں ہے لہذا اُسے جماعت سے مائنس کر دینے کی سعی کی جارہی ہے” عمران خان کی ایک. خاص طبقے میں. مقبولیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا مگر آج کی تاریخ میں عمران خان کے لیے یہ منطق حقائق کے برعکس ہے کیونکہ عمران خان کے جرائم کی فہرست اس قدر طویل ہوچکی ہے کہ اسکے اپنے بااعتماد مہرے اسے مائنس ون کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں، عمران کی شہرت صرف کرکٹ کے میدانوں کی وجہ سے نہیں تھی بلکہ ان کی زندگی کی رنگین داستانیں امریکہ سے لے کر برطانیہ اور بھارت سے لے کر پاکستان تک پھیلی ہوئی ہیں، اس حقیقت کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا کہ عمران خان نے کرکٹ کھیلنے اور چندہ جمع کرنے کے علاوہ زندگی میں اور کوئی کام کیا ہی نہیں تھا، لہٰذا وزیراعظم بننے کے بعد عمران خان انہی مشاغل میں مزید تن دہی سے مصروف عمل رہےاور انکے “کارناموں” کی داستانیں دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہیں ۔ وزیراعظم ہاؤس کا فلور نمبر 4 ایسے ہی تو بدنام نہیں ہو گیا تھا۔ لوٹ مار کے لیے ہیلی کاپٹر کیس، بی آر ٹی پراجیکٹ،مالم جبہ، بلین ٹری سونامی راولپنڈی رنگ روڈ، منی لانڈرنگ کیس اور اب توشہ خانہ کا صفایا قابل ذکر کارناموں میں شامل ہیں جو عدالتوں میں زیرسماعت ہیں شواہد کی روشنی میں عمران خان ان کیسز میں سزا سے بچ نہیں سکتے۔اگر مالی جرائم کے بعد قومی جرائم کی بات کی جائے تو سابق وزیراعظم عمران خان کے دور میں ترکی، چین، سعودی عرب اور امریکہ سمیت پاکستان کے سارے ہی دوست ممالک پاکستان سے ناراض ہو گئے تھے، امریکی سائفر کا من گھڑت پروپیگنڈہ کرکے اسے امریکی سازش کا نام دے کر قوم کو آپس میں دست گریبان کردیا گیا، پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کو جان بوجھ کر نقصان پہنچایا گیا، بطور وزیراعظم آئی ایم ایف سے معاہدہ کر کے اس کی خلاف ورزی کی گئی اور بات یہی تک نہیں رکی موجودہ دور حکومت میں آئی ایم ایف سے ملنے والے قرض کو رکوانے کے لیے بھاری رقوم خرچ کر کے فیک پروپیگنڈے کیا گیا، منی لانڈرنگ کی گئی جسکا مقدمہ ایف آئی اے دیکھ رہی ہے اور بطور وزیراعظم توشہ خانہ کی عمدہ صفائی کرکے ریاست کو. نقصان پہنچایا گیا دوست ممالک سے ملنے والے تحفے بیچ کھائے، جس سے ان ممالک خصوصاً سعودی عرب سے تعلقات خراب ہوئے، ملکی ساکھ شدید متاثر ہوئی،بات یہی تک نہیں رکی بلکہ اقتدار چھن جانے کے بعد قومی سلامتی کے اداروں اور فوجی قیادت پر ایسے من گھڑت الزامات لگائے گئے کہ دشمن بھی حیران رہ گئے، قوم کو تقسیم کردیا گیا، اخلاقی اقدار کو روند کر رکھ دیا گیا، اداروں میں تقسیم کی سازش کی گئی، عمران خان نے ریاست اور. ریاستی اداروں کو. شدید نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا اس وقت عمران خان کے خلاف ضابطہ فوجداری کے تحت دہشت گردی سمیت مختلف دفعات کی تقریبا 18 ایف آئی آرز درج ہیں ۔جن میں وہ ضمانت پر ہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ میں 13 دسمبر کے لئے عمران خان کے خلاف پانچ سنگین نوعیت کے مقدمات کی سماعت ہوگی، الیکشن کمیشن، اسلام آباد ہائی کورٹ، توشہ خانہ یا کسی اور مسئلے پر عمران خان کو مائنس کیا جا سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہو گا کہ یوں پی ٹی آئی بحیثیت ایک سیاسی جماعت ختم ہو جائے گی کیونکہ عمران خان کا دوسرا نام پی ٹی آئی ہے اور وہاں کوئی متبادل قیادت موجود نہیں۔ اگر سیاسی طور پر دیکھا جائے تو مختلف جماعتوں کے کامیاب وارداتئیے عمران خان کی چھتری تلے پناہ لینے میں کامیاب ہوئے، ان “رہزنوں”کی بڑی تعداد پی ٹی آئی میں اہم عہدوں پر فائز ہے جو بیک وقت عمران خان سے وفاداری اور حکومت سےہاتھ ملائے ہوئے ہیں، ان میں پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی، فوادچوہدری، پرویز خٹک مائنس ون کے بڑی شدت سے منتظر ہیں جو اپنے تئیں ہر ایک خود کو پارٹی کی سربراہی کے حقیقی حقدار سمجھتا ہے، پنجاب میں پرویز الٰہی نے تحریک انصاف میں نقب لگا رکھی ہے اور اندرون خانہ لالچ دیکر اپنی سیاسی پوزیشن کو مضبوط کررہے ہیں یہی وجہ ہے کہ گزشتہ روز تحریک انصاف کے رہنما خیال احمد کاسترو کو ڈیل کے تحت چپکے سے صوبائی وزیر کا عہدہ دے دیا اور عمران خان کو کانوں کان خبر تک نہیں ہونے دی،اس اقدام نے پاکستان تحریک انصاف کی صفوں میں ایسے وقت میں ہلچل مچا دی جب پارٹی چیئرمین عمران خان صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کے لیے کمر کس رہے ہیں۔عمران خان کو سب سے زیادہ جس شخصیت پر اعتماد ہے کہ وہ انکی حکم عدولی کسی طور نہیں کریں گے چاہے انہیں آئین کے خلاف ہی کیوں نہ جانا پڑے ان معتمد خاص صدر مملکت عارف علوی کی سنئیے وہ بیک وقت عمران خان اور وزیراعظم شہباز شریف کے سیاسی مفادات کی نگرانی کرتے ہیں، آرمی چیف کی تقرری میں رکاوٹ ڈالنے کی حامی بھرنے کے باوجود علوی صاحب نے عمران خان کی بات پر کان نہیں دھرے، مصدقہ اطلاعات کے مطابق جب وزیر اعظم آفس نے سمری صدر عارف علوی کو بھجوائی تو انہوں نے اس پر دستخط کر دیئے، اور پھر ازراہ تکلف دستخط کرنے کے بعد وہ وزیر اعظم کے ہوائی جہاز پر لاہور گئے اور عمران خان سے ملاقات کرکے انہیں انکے ہونے کا یقین دلایا۔
* وقت کرتا ہے پرورش برسوں…. حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
awareinternational A Credible Source Of News
Aware International © Copyright 2025, All Rights Reserved