
دنیا کے تمام ممالک افیشل آرمی کے علاوہ ایک پرائیویٹ ارمی بھی رکھتے ہیں جن کو وہ اپنا نام نہیں دیتے ان کی قتل و غارت گری کو اون نہیں کرتے ایسی ہی ایک دنیا کی پہلے نمبر پر خطرناک ترین تنظیم بلیک واٹر ہے
میں اج سے بلیک واٹر کے متعلق ایک سلسلے وار تحقیقی مواد پوسٹ کرنے جارہی ہوں کہ بلیک واٹر کیسے وجود میںآئ
قسط نمبر1……
دنیا بھر میں دہشت پھیلا کر دہشت گردی کرنے والی امریکی مسلح تنظیم بلیک واٹر بارے پوری دنیا ششدر و حیران ہے کہ اس کی چھپی اور کھلے عام دہشت گردی پر امریکہ خصوصاً جبکہ دیگر ممالک عموماً آنکھیں بند رکھے ہوئے ہیں. اس تنظیم نے مسلمان ممالک میں انسانیت سوز مظالم ڈھائے اور شہر کے شہر اجاڑ دیئے. یہ پاکستان میں بھی چوری چھپے امریکی سفارت کاروں کی سیکورٹی کے نام پر 2013 تک دندناتے پھرتے رہے لاہور، کراچی اور اسلام آباد کے پوش علاقوں میں بڑی بڑی رہائش گاہوں میں رہائش پذیر تھے اور اپنی دہشت سے بھر پور کاروائیاں سرانجام دیتے رہے آئے روز پولیس ناکوں پر اور سیکورٹی فورسز سے بدتمیزی کے واقعات عام سننے میں آتے تھے اور پاکستانی قوانین کی خلاف ورزیاں بلیک واٹر کا پسندیدہ مشغلہ بنا رہا ہماری حکومتیں ان سے نالاں تو تھیں مگر کاروائی سے بھی ہمیشہ گریزاں رہیں. ان کے ایجنٹ سیکورٹی فورسز کے ہاتھوں پکڑے جاتے تو امریکی سفارتی استثناء کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دندناتے نکل جاتے ان کی بدمعاشی کا یہ عالم تھا کہ کنٹونمنٹ کے ایریا میں بھی بدمعاشی کرتے جیکنگ تو درکنار اپنی گاڑیوں کے شیشے تک نیچے نہ کرتے اسلحہ سے بھری گاڑیوں میں پھرتے اور سیکورٹی فورسز کے ساتھ ہتک آمیز سلوک روا رکھتے.
ان کے خلاف چند سال قبل اقدامات کئے گئے تو وزارت داخلہ کے ہوش اڑ گئے جب پتہ چلا کہ وہ پوش شہری علاقوں میں رہائش پذیر ہیں اور اپنا نیٹ ورک چلا رہے ہیں. پی پی پی کے دور میں بلیک واٹر کے 200 افراد کو ویزے دئیے گے اب وثوق سے تو نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کس تعداد میں اور کہاں کہاں پاکستان میں موجود ہیں مگر یہ اٹل ہے کہ وہ امریکیوں کی سیکورٹی کے حوالے سے امریکی سفارت خانوں میں اب بھی تعینات ہیں.
بلیک واٹر کیسے معرض وجود میں اور اس کا بانی کون تھا؟
ریاست مشی گن کے شہر ہالینڈ کی جنوبی ساحلی شاہراہ پر واقع حویلی نمبر1057 فلوجہ سے اتنی ہی دور ہے جتنا اپ تصور کر سکتے ہیں یہ گھر جس میں ایرک پرنس پیدا ہوااور پلا بڑھا امریکہ کے وسطی مغرب میں واقع جھیل مشی گن کی ایک تنگ کھاڑی جھیل مکاوتا کے پرسکون کنارے پر واقع ہے گرمیوں کے دنوں میں درخت شاہراہ کے کنارے جھومتے ہیں اور جھیل کے پار سورج اپ و تاب سے چمک رہا ہوتا ہے کبھی کبھار کسی کار کے گزرنے یا موٹر بوٹ کے اسٹارٹ ہونے کا ہلکا سا شور ہوتا ہے ورنہ عام طور پر یہ علاقہ بالکل خاموش اور پرسکون رہتا ہے خوشحال امریکی معاشرے کی وہ تصاویر جو اپ عموماً پوسٹ کارڈ پر چھپی دیکھتے ہیں
دو ادھیڑ عمر عورتیں تیزی سے گاس کاٹنے والی مشین چلاتے ایک شخص کے پاس سے گزرتی ہیں ان کے علاوہ پوری گلی میں اور کوئی نظر نہیں آ رہا تھا ایک خاتون دوسری خاتون کی جانب دیکھتے ہوئے پوچھتی ہے کیا پرنس خاندان اب بھی اس حویلی کا مالک ہے یہ حویلی بہت بہت مشہور ہےاور اس سے ذیادہ اس کے باسی
ہالینڈ مشی گن میں پرنس خاندان شاہی خانوادہ سمجھا جاتا ہے؛اور ایرک کا باپ ایڈگر پرنس تو بادشاہ کے طور پر جانا جاتا تھا
جس طرح بلیک واٹر کامویوک نارتھ کیرولینا میں واقع سات ہزار ایکڑ دلدلی علاقے میں محیط کمپاؤنڈ جہاں ہمہ وقت مشین گن کی آوازیں گونجتی ہیں، ایرک پرنس کی زاتی جائیداد ہے اس طرح ہالینڈ کا یہ ولندیزی (Dutch )گاوں اس کے باپ کی جاگیر تھا ایڈگر پرنس ایک خود ساختہ صنعت کار تھا اور شہر کی ایک چوتھائی ابادی اس کی ملازم تھی اس نے اس شہر کے ادارے بنائے اس اس کے تجارتی علاقے کی منصوبہ بندی کی اور رقوم فراہم کی اور شہر کے دونوں کالجوں کا وہ سب سے بڑا مربی تھا 1995 میں اس کی اچانک موت کے دس سال بعد اس کا ورثہ اس کی یاد دلاتا رہتا ہے شہر کے تجارتی علاقے؛ کی دو معروف ترین سڑکوں کے سنگم پر ایڈگر پرنس کی یادگار موجود ہے کانسی کی سات سیڑھیاں ایک چبوترے تک جاتی ہیں جس پر تین موسیقاروں کے قد آور مجسمے نصب ہیں ایڈگر پرنس عیسائی مزہب کا پیروکار، سیاست اور تجارت کی اونچی نیچ کے رازوں سے واقف تھا 1ور اپنی اولاد کو بھی اس کا سبق دیا.
اگرچہ آج کل ہالینڈ پرنس خاندان کی یادگاروں سے بھرا پڑا ہے. ایڈگر اس شہر کا پہلا بادشاہ نہیں تھا اپنی آبادکاری کی شروعات سے ہی ہالینڈ عیسائی سرداروں کے زیر تسلط رہا ہے. 1846میں البرٹس دان راتلے ستاون دیگر ولندیزی پناہ گزینوں کے ہمراہ سمندری راستے سےمشی گن کے مغربی ساحل پر پہنچا تھا. اور ملک چھوڑنے پر مجبور ہوا تھا.وان راتلے ڈچ ریفارم چرچ کے ایک فرقے کا رکن تھا جسے وہاں کا شاہی خاندان اچھا نہیں سمجھتا تھا اپنے جہاز ساؤتھرنر پر امریکا پہنچ کر وہ اپنے ساتھیوں کو جھیل مشی گن کے کنارے لے گیا جہاں اس کا خیال تھا کہ وہ اپنے مزہبی عقائد کے مطابق ذندگی گزار سکتے ہیں کچھ تلاش کے بعد اسے ایک موزوں مقام مل گیا یہ مشی گن کی جھیل سے منسلک ایک چھوٹی جھیل کا کنارہ تھا
9 فروری 1847 کو وان راتلے نے اس بستی کی بنیاد رکھی جہاں ایرک پرنس نے اپنا بچپن گزارنا تھا. تاہم وارن راتلے کا خواب شرمندہ تعبیر نا ہو سکا. ہوپ کالج جس نے قائم کیا تھا اور جسے اس کے خاندان نے کروڑوں ڈالر کے عطیات دئیے تھے
وان راتلے ایک عیسائی بستی بسانا چاہتا تھا جہاں عیسائی عقائد کی حکمرانی ہو مگر 1850 میں اسے قدرے مایوسی کا سامنا کرنا پڑا جب ہالینڈ ٹاون شپ کو مقامی حکومت کا درجہ مل گیا اور اس وجہ سے عسائیت کا مکمل کنٹرول ممکن نا رہا اب وان راتلے نے ہالینڈ میں اپنی خیالی جنت بسانے کے لیے متبادل زرائع کی تلاش شروع کر دی سیاست میں سرگرم ہونے اور وسیع قطعات اراضی کا مالک ہونے کی وجہ سے اسے اثررسوخ حاصل تھا اگرچہ مکمل عیسائی بستی کے لیے درکار بہت سے وسائل اب میسر نہ رہے تھے وان راتلے وہاں کے اکلوتے کلسیا کا اب بھی سربراہ تھا ڈسٹرکٹ اسکول بورڈ کا رکن تھا سب سے بڑا زمیندار تھا اور کاروباری حیثیت سے وسیع جائیداد بنا چکا تھا یہی بات ایڈگر پرنس اور اب ایرک کے بارے میں بھی کہی جا سکتی تھی جو وان راتلے کی موت کے قریباً سو سال بعد پیدا ہوا تھا
قدامت پرست ڈچ ریفارم چرچ جس سے وان راتلے اور اس کا خاندان مذہبی رہنمائی حاصیل کرتے تھے کے عقائد ساتویں صدی عیسوی کے ایک پادری جان کیلون کی تعلیمات پر مبنی تھے اس فرقے کا اہم عقیدہ یہ تھا کہ خدا نے ہدایت یافتہ اور گمراہ لوگوں کا تعین پہلے سے کیا ہوا ہے یہ لوگ خدائی معاملات میں انسانی مداخلت کے قائل نہیں تھے ان کے عقائد میں یہ بھی شامل تھا کہ احکامات خدا وندی پر سختی سے عمل کرو اور محنت کش بنو کیونکہ خدا اپنے بندوں کی راہنمائی تو کرتا ہے مگر اپنے حصے کا کام کرنے کا خود زمے دار ہے یہ فرقہ ان اخلاقی اقدار پر ہمیشہ فخر کرتا تھا ہالینڈ کے اس قصبے کا دعوی ہے کہ اس کے باسیوں نے اپنے ہاتھوں سے جھیل مشی گن تک نہر کھودی جو کاروباری سرگرمیوں میں معاون ثابت ہو ئی اور کھدائی کے بعد نہر پر پل تعمیر کیا گیا
جاری ہے…..
تحقیق. حجاب رندھاوا
awareinternational A Credible Source Of News
Aware International © Copyright 2025, All Rights Reserved