جنرلز کرنلز کے پاس اربوں روپے کے اثاثے ہیں

Share

پچھلے 6 PMA لانگ کورسز میں پاس آوٹ ہونے والے 180 کیڈٹس، برگیڈئیر اور جنرلز کے بچے تھے فوج کے ڈسپلن میں ولدیت کا رینک مرتبہ اور حثیت نہیں دیکھی جاتی ہارڈ ایریاز میں تعیناتیاں یونٹ بیس پہ ہوتیں ہیں جو جوان جس یونٹ کا حصہ ہوگا وہ اپنی یونٹ کے ساتھ اس ایریا میں تعینات ہوگا یعنی بلا تخصیص بلا مخصوص شناخت تعیناتی چنانچہ فوج کے سخت ترین انٹرنل نظام کے تحت جنرلز کے یہ 180 بیٹے بلوچستان ،وزیرستان ،اور بارڈر ایریا پر تعینات رہے ، یہ وہ خطرناک ترین محاز ہیں، یہاں زندگی کا بھروسہ نہیں ان علاقوں میں سپاہی سے لیکر جنرلز تک کے بیٹے شہید ہوے اس کے باوجود کبھی ان کے جذبوں میں لغزش نہیں آئی ایک بیٹا شہید ہوا تو فوجی خاندانوں نے اپنے دوسرے بیٹے پیش کئیے انھوں نے فوج جوائن کی، شہادتیں ہوتی رہی اور فوجی الحمدللہ کہہ کر سبز پرچم میں لپٹے اپنے جوان بچے سپرد خاک کرتے رہے لیکن سوال یہ ہے کہ جب ان جنرلز کے پاس اربوں روپے ہیں تو یہ اپنے بیٹے انڈسٹریلسٹ کیوں نہیں بناتے بزنس مین کیوں نہیں بناتے انھیں ٹاٹا برلا جیسی کمپنیاں کیوں کھول کر نہیں دیتے انھیں اس جگہ کیوں جھونک دیتے ہیں یہاں موت ہر دم دستک دیتی ہیں اتنے مشکل حالات میں جب بارڈرز پر افغانستان کی جانب سے آئے روز حملے ہوتے ہیں دہشتگردوں کی جانب سے فوجی قافلوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑی علاقوں میں بی ایل اے اور ٹی ٹی پی جیسی دہشت گرد تنظیموں کے سامنے گوریلا وار لڑتے سینہ سپر یہ جوان کیا یہ انسان نہیں یا انکے والدین کے سینے میں دل نہیں گولی اندھی ہوتی ہے وہ یہ نہیں جانتی کہ سامنے جنرل کا بیٹا ہے یا کرنل کا یا سپاہی کا یہ جاننے کے باوجود ان جنرلز نے اپنے بیٹے فوج کے سپرد کیوں کئیے یہ جنرل سرفراز کا بیٹا کیپٹن احمد سرفراز فخر سے کیوں کہتا ہیں میرا باپ بھی فوجی تھا شہید ہوا اب میں فوج میں ہوں دعا کرو مجھے شہادت کا مرتبہ ملے دلچسپ امر یہ ہے کہ اربوں روپے، پلاٹ اور جزیروں جیسی کہانیاں گھڑنے والے اپنے بچوں کو فوج میں نہیں بھیجتے بلکہ انڈسٹریلسٹ، سیاست دان اور بیورو کریٹس بناتے ہیں یہ اپنی اولادوں کے لیے مہنگی ترین سکیورٹی ایجینسز ہائر کرتے ہیں ان کی حفاظت کے لیے ماہانہ کروڑوں روپے ادا کرتے ہیں جبکہ سیاسی مقاصد کے حصول اور پراپگنڈہ پریشر کے لیے اپنے ٹاوٹس اور سوشل میڈیا ٹیمز کے زریعے جن جنرلز کے اربوں روپے، جزیروں اور پراپرٹیز کی خیالی کہانیاں گھڑتے ہیں وہ جنرلز اپنے بچے ملک کے دفاع کے لیے پیش کر دیتے ہیں اگر فوج میں اربوں روپے کمائے جا سکتے ہیں تو دولت کے یہ پجاری اس سے دور کیوں ہیں یہ اپنے بچے فوج میں کیوں نہیں بھیجتے تاکہ وہ بھی کل کو جنرل بن سکیں لیکن وہ جانتے ہیں جنرل بننے سے پہلے زندگی کی 3 دہائیاں اس گولی کے سامنے کھڑا ہونا ہوگا جو بےسمت ہے یا پھر کہ ان بغضیوں کو اللہ اس سعادت کے لیے چنتا ہی نہیں پاک فوج ادارہ نہیں جذبہ ہے اور پاک جزبے کبھی پلید اجسام میں نہیں پنپتے، حجاب رندھاوا