
قومی احتساب بیورو (نیب) نے اپنے قیام سے اب تک تقریباً آٹھ کھرب 86 ارب روپے کی ریکوریاں کی ہیں لیکن وزارت خزانہ کے مطابق اب تک نیب کیجانب سےصرف 15 ارب روپے قومی خزانے میں جمع کروائے گئے ہیں۔یہ ریکارڈ پارلیمنٹ کے سامنے پیش کیاگیا ہے پارلیمان کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سامنے وزارت خزانہ کے اس بیان کے بعد یہ بحث زور پکڑ گئی ہے کہ اگر قومی خزانے میں نیب نے دو دہائیوں سے زائد عرصے میں صرف 15 ارب جمع کروائے ہیں تو پھر اخراجات، تنخواؤں اور دیگر بجٹ کا کیسے دفاع کیا جا سکتا ہے۔

پاکستان میں پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کو گذشتہ ہفتے نیب کو گذشتہ تین برس میں ملنے والے بجٹ کی تفصیلات بتائی گئیں، جن کے مطابق سال 2019-20 میں نیب کو نو ارب روپے سے زیادہ بجٹ ملا، سال 2020-21 میں یہ بجٹ 5.1 ارب جبکہ سال 2021-22 کے لیے نیب کو 4.8 ارب روپے ملے۔نیب نے تحریک انصاف کے دور اقتدار میں تحقیقات پر 18 ارب روپے خرچ کیے۔ سنہ 2018-19 سے لے کر 2020-21 تک یہ رقم مقدمات دائر کرنے اور پھر ان کی تحقیقات پر خرچ کی گئی،

نیب کے مطابق ریکوری کی مالیت اور جمع کروائی گئی رقم میں فرق اس لیے ہے کیونکہ یہ ریکوریاں صرف رقم کی صورت میں نہیں بلکہ جائیداد اور دیگر اثاثوں کی صورت میں بھی ہیں۔پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین نور عالم خان نے نیب سے ریکوریوں کی تمام تفصیلات طلب کیں اور کہا کہ وہ ان ریکوریوں کا آزادانہ آڈٹ بھی کریں گے جو رقم نیب کے پاس آئے گی اس کا آڈٹ ضرور کیا جائے گا، نیب جو بھی وصولیاں کرتا ہے وہ قومی خزانے میں جمع ہونی چاہیے، جو ادارہ حکومت کا ایک پیسہ بھی لے گا اس کا آڈٹ ضرور ہو گا۔
نیب نے وضاحت کی کہ نیب ایک روپیہ بھی اپنے پاس نہیں رکھتا، نیب کا ایک ہی اکاؤنٹ ہے جس میں تمام وصولیوں کی رقم رکھی جاتی ہیں
نیب ریکارڈ کے مطابق سنہ 2018 میں نیب کی احتساب عدالتوں سے 78 مقدمات یعنی ریفرنسز میں ملزمان کو سزا ہوئی جبکہ 56 میں ملزم بری ہو گئے۔ نیب کے مطابق کامیابی کی شرح 58 فیصد بنتی ہے۔نیب ریکارڈ کے مطابق سنہ 2019 میں نیب کی احتساب عدالتوں سے 53 مقدمات میں ملزمان بری ہوئے جبکہ 43 مقدمات میں ملزمان کو سزا سنائی گئی۔ نیب کے مطابق احتساب عدالتوں سے کامیابی کی شرح 44 فیصد رہی۔ہائیکورٹ سے 136 اپیلوں میں نیب کے خلاف فیصلے آئے جبکہ 74 میں نیب کے حق میں فیصلہ آیا۔ نیب کے مطابق کامیابی کی شرح 35 فیصد رہی۔

نیب کے ریکارڈ کے مطابق سنہ 2020 میں نیب کے قائم کردہ 66 ریفرنسز میں ملزمان بری ہو گئے جبکہ 31 مقدمات میں ملزمان کو احتساب عدالتوں سے سزا ہو سکی۔ یوں تحریک انصاف کے احتساب کے نعرے کے تحت نیب نے اس برس صرف 31 فیصد کامیابی حاصل کی۔نیب کے مطابق سنہ 2020 میں ہائیکورٹ میں 71 اپیلیں نیب کے حق میں جبکہ 54 میں اس کے خلاف فیصلہ آیا۔ نیب کے مطابق کامیابی کی یہ شرح 56 فیصد تک بنتی ہے۔نیب ریکارڈ کے مطابق سپریم کورٹ نے سنہ 2020 میں 35 مقدمات میں نیب کے حق میں فیصلے سنائے جبکہ 13 مقدمات میں نیب کے خلاف فیصلے صادر ہوئے۔
نیب کے مطابق پراسیکیوشن کی کامیابی کے سبب سپریم کورٹ میں نتیجہ 72 فیصد تک رہا۔نیب کے مطابق ابھی سال 2021 اور 2022 کا ریکارڈ مرتب کیا جا رہا ہے۔میڈیا کو جاری کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق قومی احتساب بیورو نے سنہ 2019 میں بالواسطہ اور بلاواسطہ 137 ارب روپے ریکور کیے جبکہ سنہ 2018 سے لے کر 31 دسمبر 2020 تک 321 ارب ریکور ہوئے۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نیب نے حقیقت میں یہ ریکوری کی ہے یا پھر اچھے مستقبل کی امید میں یہ اعداد و شمار پریس ریلیز کی شکل میں جاری کر دیے ہیں؟اکتوبر 2019 کے آغاز میں نیب نے دعویٰ کیا تھا کہ ریکور کی جانے والی رقم 71 ارب روپے ہے تاہم دو، تین ماہ کی قلیل مدت میں ریکوری کا دعویٰ 71 ارب سے بڑھ کر 153 ارب تک پہنچا دیا گیا تھا مگر نیب کے اپنے مرتب کردہ ریکارڈ سے ان دعوؤں کی تصدیق نہیں ہو سکی۔
نیب کا دعویٰ ہے کہ اپنے قیام سے اب تک اس نے آٹھ کھرب 86 ارب روپے کی ریکوریاں کی ہیں جبکہ وزارت خزانہ کے مطابق اب تک صرف 15 ارب روپے قومی خزانے میں جمع کروائے گئے ہیں۔نیب حکام کے مطابق بہت ساری ریکوریاں ایسی ہیں جو پیسوں میں نہیں بلکہ جائیداد اور دیگر طریقے سے بھی ہوئیں۔نیب کے مطابق اس نے سٹیٹ بینک کے ساتھ مل کر 110 ارب روپے ریکور کیےنیب کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے مطابق بینک براہ راست نیب کو ریکوری کے لیے نہیں کہتے بلکہ وہ سٹیٹ بینک سے رجوع کرتے ہیں اور پھر سٹیٹ بینک نیب کی خدمات حاصل کرتا ہے۔نیب کے مطابق اس نے گذشتہ دو دہائیوں میں 91 ارب روپے خود ریکور کیے یعنی پلی بارگین اور رضاکارانہ واپسی یا والنٹری ریٹرن سے یہ پیسہ حاصل ہوا۔۔نیب کے مطابق اس نے اپنے قیام سے آج تک 2341 پلی بارگین کی ہیں۔ اس عمل میں نیب احتساب عدالت میں ڈیل کی تمام تفصیلات بتا دیتا ہے اور چیئرمین نیب کی منظوری اور عدالت کی اجازت سے ریکوری کی جاتی ہے نیب نے 20 برس سے زائد کے عرصے میں 3194 والنٹری ریٹرن کو یقینی بنایا ہے۔ اس عمل میں ملزم طویل عدالتی جنگ سے بچنے کی خاطر نیب کی طرف سے عائد کیے جانے والے الزامات میں سے کچھ رقم واپس کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔نیب کے مطابق اس نے 546 ارب روپے بالواسطہ ریکور کیے ہیں جبکہ قرضوں کی ری شیڈولنگ اور ری سٹرکچرنگ آف لون کی مد میں 59 ارب ریکور کیے گئے جبکہ مختلف عدالتوں سے جرمانوں کی صورت میں 50 ارب روپے ریکور کیے گئے۔نیب کے مرتب کردہ ریکارڈ کے مطابق نیب نے پنجاب کوآپریٹو بورڈ فار لیکیوڈیشن (پی سی بی ایل) مقدمے میں 16 ارب ریکور کیے گئے
awareinternational A Credible Source Of News
Aware International © Copyright 2025, All Rights Reserved