
وزیراعظم کے معاون خصوصی عرفان قادر کا کہنا ہے کہ سب ادارے آئین کے تابع ہیں اور کوئی فرد واحد پاکستان کو کنٹرول نہیں کر سکتا۔اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے عرفان قادر کا کہنا تھا ہمیں آئین کو فوقیت دینی ہے، دنیا میں جہاں بھی جمہوریت ہے وہاں پر ادارے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے کام کرتے ہیں، آئین پاکستان میں لکھا ہے کہ حاکمیت صرف اللہ کی ہے، ہمیں آئین کی عزت و تکریم کرنی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کا ہرگز یہ منصب نہیں کہ سپریم کورٹ کے پیغامات دنیا کو پہنچائے، وزیراعظم کسی عدالت کو جوابدہ نہیں ہے، وہ بھی ایک وقت تھا جب پاکستان میں سیاسی انجنیئرنگ ہوئی، یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کی حکومتوں کو عدالتوں نے گھر بھیج دیاان کا کہنا تھا پانامہ کیس میں آئین و قانون کی خلاف ورزی کی گئی، آئین میں تاحیات نااہلی کا ذکر نہیں لیکن نواز شریف کو تاحیات نااہل کیا گیا، آرٹیکل 62، 63 میں متعلقہ فورم کی نشاندہی کی گئی ہے۔مشیر وزیراعظم کا کہنا تھا یوسف رضا گیلانی پر توہین عدالت لگا دی گئی، سپریم کورٹ کا یوسف رضا گیلانی کے خلاف فیصلہ صریحاً خلاف قانون تھا، پانامہ کیس میں نواز شریف کے خلاف کیسز بنے، عمران خان پانامہ کیس کے بعد پاکستان کے وزیراعظم بنے۔انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم سے پنجاب حکومت گر گئی، پنجاب اسمبلی میں منحرف اراکین کے ووٹ کو شمار نہیں کیا گیا، اس طرح پنجاب میں حمزہ شہباز کی حکومت گرا دی گئی۔ان کا کہنا تھا صدر اور گورنر کو انتخابات کی تاریخ دینے کا حق نہیں ہے، صدر اور گورنر کی جانب سے انتخابات کی تاریخ دینا خلاف آئین ہے۔عرفان قادر کا کہنا تھا کسی کو آئین کو ری رائٹ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، ہر ادارے کی حدود آئین میں درج ہے، جو حکم قانون کے خلاف ہوتا ہے اس پر عمل ہی نہیں ہوتا، انتخابات کی تاریخ سپریم کورٹ نے دے دی، پک اینڈ چوز سے بنچ نہیں بنتے۔وزیراعظم کے مشیر کا کہنا تھا سپریم کورٹ کا الیکشن کی تاریخ دینے کا فیصلہ غلط تھا، اس کیس میں 9 ججز تھے، 2 نے معذرت اور 4 ججز نے اپیل کو ناقابل سماعت قرار دیا، تین ججز نے اپیل کو قابل سماعت سمجھا تھا، پارلیمنٹ یا حکومت ہرگز عدلیہ کے خلاف نہیں ہے، ہم عدلیہ کے ساتھ کھڑے ہیں، عدلیہ بھی اپنے معاملات افہام و تفہیم سے طے کرے، قوم کو بتانا چاہتا ہوں کہ حکومت عدلیہ کو مضبوط کرنا چاہتی ہے، اگر عدلیہ میں کوئی تفریق ہے تو ججز خود اسے ختم کریں اور معاملے کو حل کریں، سپریم کورٹ کو نہ ڈیم بنانے کی ضرورت ہے نہ ریل اور پی آئی اے چلانے کی۔انہوں نے کہا کہ آئینی عدالت اچھی تجویز ہے، پاکستان میں بھی آئینی عدالت ہونی چاہیے، آئینی عدالتوں میں مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو لینا چاہیے، غیر متنازعہ اراکین اسمبلی، میڈیا کے لوگ، وکلا اور ججوں کو آئینی عدالتوں میں لینا چاہیے، میں سپریم کورٹ کے ساتھ کھڑا ہوں
awareinternational A Credible Source Of News
Aware International © Copyright 2025, All Rights Reserved