
روسی جنرل سرگئی سوروکن، جن کا عرف جنرل آرماگیڈن ہے، یوکرین کے خلاف جنگ میں صدر ولادیمیر پوتن کے نئے کمانڈر بطور خاص تعینات کئے گئے ہیں۔
ان کی بطور نئے کمانڈر تعیناتی کا اعلان کریمیا پل پر حملے کے چند گھنٹے بعد کیا گیا اور نئے کمانڈر کی تقرری کے پہلے دن ہی یوکرین کو بڑے پیمانے پر روسی میزائلوں سے نشانہ بنایا گیا۔ یہ میزائل حملہ، مہینوں سے مشاہدہ کیے جانے والے میزائل حملوں میں سے شدید ترین تھا۔لیکن جنرل سوروکن روس کی یوکرین پر ناکام جنگی کوششوں کے لیے نئے نہیں ہیں۔ وہ جنوبی یوکرین کے اگلے محاذ پر فوجی دستوں کی کمانڈ کرتے رہے ہیں اور یوکرین جنگ چھڑنے سے ایک روز قبل یورپ نے ان پر ان کے فوجی اثر و رسوخ اور صدر پوتن کے ساتھ تعلقات کے باعث پابندی عائد کر دی تھی۔
ایسا لگتا ہے کہ پہلی مرتبہ روس نے یوکرین میں اپنے پورے فوجی آپریشن کے لیے باضابطہ طور پر کسی کمانڈر کا نام دیا ہے۔ اس سے قبل میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ عہدہ جنرل الیگزینڈر ڈوورنیکوف کے پاس تھا۔55 سالہ جنرل سوروکن سنہ 1966 میں نوووسبرسک میں پیدا ہوئے اور انھیں روس کی حالیہ جنگوں کا وسیع تجربہ ہے۔جنرل سوروکن نے 1980 کی دہائی کے آخر میں افغانستان میں اپنے فعال فوجی کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ روسی تاریخ اور ثقافت کے پروفیسر پیٹر والڈرون کا کہنا ہے کہ ‘یہ وہ وقت تھا جب حالات ‘انتہائی ناموافق’ تھے اور سوویت ہار رہے تھےپروفیسر والڈرون کے مطابق ان حالات نے جنرل سوروکن کے کردار اور ساکھ کو بنانے میں کردار ادا کیا کیونکہ انھوں نے اس وقت کے آغاز سے ہی وہ ‘واضح تشدد میں’ ملوث رہے تھے۔سنہ 1991 میں ماسکو میں ایک جموریت کے حق میں کیے گئے مظاہرے میں مظاہرین اور ایک فوجی قافلے کے مابین جھڑپوں میں تین افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ بی بی سی رشئین سروس کے مطابق مظاہرین نے فوجی قافلے کا راستہ روکا تھا جبکہ اس قافلے کی قیادت جنرل سوروکن کر رہے تھے انھوں نے ان پر گاڑی چڑھا دینے کا حکم جاری کیا تھا۔تاہم ان کے خلاف تمام الزامات اس بنیاد پر واپس لیے گئے تھے کہ وہ صرف احکامات مان رہے تھے
چار سال بعد فرونز ملٹری اکیڈمی میں بطور طالبعلم، جنرل سوروکن کو ایک ہم جماعت کو غیر قانونی طور پر پستول فروخت کرنے کے الزام میں معطل کر دیا گیا تھا۔ انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ انھیں ‘پھنسایا’ گیا تھا اور بعد ازاں ان کے ریکارڈ سے اس سزا کو ہٹا دیا گیا تھا۔جنرل سوروکن نے 1990 کی دہائی میں تاجکستان اور چیچنیا کے تنازعات اور حال ہی میں شام میں بھی خدمات انجام دی ہیں، جہاں ماسکو نے 2015 میں شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کی جانب سے مداخلت کی تھی۔