کیا حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ اتنی قابل اعتماد ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب پہ اس کا حوالہ دیا جا سکے؟؟؟؟
کیا ہماری زہانت غور و فکر کو زنگ لگ چکا ہے کہ ہمیں اپنی تحقیقی صلاحیت کو دفن کرتے ہوے حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ کو حرف آخر سمجھ لینا چاہیے؟؟؟
حمود الرحمٰن کمیشن کی رپورٹ کے چند حصے پڑھتے ہوے ایسے بہت سے سوال لگاتار زہن میں آتے رہے
بھٹو نے اپنے اقتدار کے شوق کی تکمیل کے بعد سانحہ مشرقی پاکستان پہ عوامی غیظ و غضب سے بچنے کے لیے سانحہ مشرقی پاکستان کے محض 10 دن بعد 26 دسمبر 1971 کو مشرقی پاکستان میں شکست کے اسباب جاننے کے لیے ایک وار کمیشن قائم کر دیا
جس کی سربراہی چیف جسٹس حمود الرحمٰن کو سونپی گئی جن کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا بھٹو ان کا بیک گراؤنڈ جانتے تھے چنانچہ اس سے بہتر ہیرا انھیں میسر نہیں آ سکتا تھا
یہاں جسٹس حمود الرحمٰن کی زہنی وابستگی، بد نیتی، کدورت سے ہٹ کر ایک سوال ہے
کہ اگر کسی جنرل کو نظام عدل میں ہونے والی موشگافیوں پہ بنائے گئے کمیشن کا سربراہ بنا دیا جائے تو وہ کیا کرے گا وہ کیسے نظام عدل کی ہزار ہا شقوں کو جانچے گا
؟؟
اسی طرح وہ وار کمیشن جس کے ذمے جنگ میں شکست اور سرنڈر کے اسباب تلاش کرنا تھا ، اس کمیشن میں جسٹس حمود الرحمٰن، جسٹس انوار الحق ۔سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس طفیل رحمن اور بلوچستان ہائی کورٹ سے دو جج صاحبان جو اس کمیشن کے ممبران تھے۔کیا یہ جج صاحبان جنگ کی سائنس سے واقف تھے؟؟
جج صاحبان بھی جانتے تھے کہ وہ اس معاملے میں کورے ہیں چنانچہ 15جنوری 1972ء کو کمیشن نے اپنے ملٹری ایڈوائزر کے ہمراہ قصور کے حسینی والا سیکٹر کا دورہ کیا اور کور اور ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز سے بات چیت کی۔ جوانوں سے بھی ملاقات کی جو اپنی اپنی پوزیشنیں سنبھالے ہوئے تھے تاکہ یہ دیکھا جاسکے کہ جنگ کے دوران میں فوجی آپریشن کیسے کیا جاتا ہے؟
اور اس 45 منٹ کے دورے میں کمیشن نے پوری جنگ کی سائنس سمجھ لی؟؟؟؟
سانحہ مشرقی پاکستان کے دس دن بعد بننے والے کمیشن نے کن سے تحقیقات کی؟؟؟
مکتی باہنی کے ڈیڑھ لاکھ گوریلوں اور اڑھائی لاکھ بھارتی فوج کے مقابل پاک فوج کے 34 ہزار فوجی مشرقی پاکستان میں لڑ رہے تھے ان میں 4 ہزار شہید ہوے کچھ زخمی تھے کچھ سرنڈر کرنے کی بجائے برما کے راستے نکل گئے جو باقی بچے وہ بھارت کی قید میں تھے مشرقی پاکستان میں شکست کے اصل اسباب ان جنگی قیدیوں نے بتانے تھے یا ان دانشوروں نے بتانے تھے جن کے حمود الرحمٰن کمیشن نے انٹرویو کئیے؟؟؟
اگر بھٹو مشرقی پاکستان میں شکست کے اسباب جاننے میں مخلص تھا تو سانحہ مشرقی پاکستان کے دس دن بعد ہی کیوں کمیشن بنایا ان قیدیوں کا انتظار کیوں نہ کیا گیا جو اس جنگ کے عینی شاہد تھے جو اس جنگ کا حصہ تھے؟؟؟؟
سپاہیوں ، جوانوں اورافسران کا موقف لیے بغیر ، انہیں سنے بغیر کمیشن نے رپورٹ مرتب کی ان کی غیر موجودگی میں انھیں مجرم ٹھہرایا
یہ کیسے جج تھے جو وار کمیشن تو دور کی بات نظام عدل پہ ہی پورا نہ اترے
مشرقی پاکستان کے محل وقوع،
سپلائی لائن، اندرونی خلفشار، سازشوں، سیاسی منظر نامہ، عددی طاقت، جیسے تمام عناصر سے نظر چراتے ہوے اس کمیشن نے مشرقی پاکستان میں موجود ایسٹرن کمانڈ پر تمام ملبہ ڈال کر ان کے کورٹ مارشل کی سفارش کر دی
1972 میں یہ رپورٹ بھٹو کے حضور پیش کر دی گئی اس کے مندرجات بھارتی اخبارات کی زینت بھی بن گئے جب اس رپورٹ پہ سوال اٹھنے شروع ہوے تو 1974 میں جنگی قیدیوں کی واپسی پہ چند کے بیانات قلم بند کر کے ضمنی رپورٹ بھی ساتھ نتھی کر دی گئی لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ نتائج تو پہلے ہی مرتب فرمائے جا چکے تھے مندرجات میڈیا کی زینت بن چکے تھے جو مشرقی پاکستان میں مصیبتیں جھیل کر بھارتی قید کی صعوبتیں برداشت کر کے وطن پہنچے انھیں بتایا گیا کہ آپ ہی زمے دار ہو
وہ اپنا غم سینوں میں دبائے گوشہ نشین ہو گئے
لیکن کسی حمود الرحمٰن نے یہ سوال نہ کیا کہ مشرقی پاکستان میں جو پچیس تیس ہزار محصور فوجی تھے ان محصور فوجیوں کو بچانے کے لیے مغربی پاکستان سے کیا کوششیں ہوئیں
وہ فوجی آج بزرگ ہو چکے ہیں لیکن پوچھتے ہیں ہمیں تب بےیارو مددگار کیوں چھوڑا گیا؟؟
سب سے اہم بات کہ اس کمیشن نے کس طریقہ کار سے شواہد اکٹھے کیے
تو یہاں معاملہ مزید دلچسپ ہو جاتا ہے
26 دسمبر کو کمیشن کا اعلان ہوا اور
یکم جنوری 1972ء کو ایک پریس ریلیز کے ذریعے عوام اور انتظامی عہدوں پر فائز افسروں اور مسلح افواج سے درخواست کی گئی کہ وہ 10جنوری 1972ء تک کمیشن کے موضوع کے حوالے سے وہ تمام تر متعلقہ معلومات اور اطلاعات فراہم کریں جو ان کے علم میں ہیں۔
کچھ افراد کمیشن کے پاس آئے اور کچھ کو سوال نامے بھجوائے گئے جن میں 17 سیاسی جماعتیں بھی شامل تھیں وقوعہ 1600 کلومیٹر دور ہوا لیکن انٹرویو مغربی پاکستان کے لوگوں کے کئے گئے
چنانچہ جن حضرات نے آ کر بیان دیا کہ فلاں نے یہ کہا اور فلاں نے یہ کہا اسے رپورٹ کا حصہ بنا کر ویسے ہی لکھ دیا گیا ان سے دلیل یا شواہد مانگنے کی ضرورت محسوس نہ کی گئ ملک دو لخت ہو چکا تھا شکست پہ دل دکھی تھے اس کے بعد اس امکان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ راوی حضرات کی طرف سے غصے یا صدمے کی حالت میں مبالغہ آرائی نہ کی گئی ہو
کمیشن نے ان تمام پوائنٹس کو نظر انداز کر دیا ان کو اس میں مارجن دیا جا سکتا ہے کہ وہ کسی انٹیلی جنس ایجنسی سے تعلق نہیں رکھتے تھے ان کے پاس جانچنے کا کوئی طریقہ نہیں تھا
چنانچہ حمود الرحمٰن کی رپورٹ سیکس، تعلقات شراب اور شباب کے موضوع پر رہی تمام سیکس سے متعلقہ سنی گئ سٹوریز کو حمود الرحمٰن کمیشن رپورٹ کا حصہ بنا دیا گیا
حمود الرحمن کمیشن کو کہا تو یہ گیا تھا کہ وہ یہ پتہ چلائے کہ دسمبر 1971ء میں ایسٹرن کمانڈ نے سرنڈر کیوں کیا،
جبکہ رپورٹ میں بتایا یہ گیا کہ فلاں نے کہا کہ لیفٹیننٹ جنرل امیر عبداللہ خان نیازی، کمانڈر ایسٹرن کمانڈ کے فلاں فلاں خاتون کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے اس لیے سرنڈر کر دیا
کمیشن کو یہ فرض سونپا گیا تھا کہ وہ یہ معلوم کرے کہ ایسٹرن کمانڈ کے دوسرے ممبران نے بھارت کے سامنے ہتھیار کیوں ڈالے، تو رپورٹ میں یہ وجوہات بیان کی گئیں کہ بعض آفیسر بزدل تھے
کمیشن کے ذمے لگایا گیا تھا کہ وہ ان اسباب کا سراغ لگائے جو ریاست جموں و کشمیر کی جنگ بندی لائن پر سیز فائر پر منتج ہوئے، لیکن رپورٹ میں اس کا جواب یہ دیاگیا کہ فوج کی سینئر قیادت اور دوسرے افسران غفلت کے مرتکب پائے گئے
آپ خود پہلے ان سوالات کی نوعیت پر غور کیجئے اور پھر جوابات کی عمومی کیفیت کو دیکھئے۔ یعنی سوال گندم اور جواب چنا رہا
کمیشن کو فریضہ تو یہ سونپا گیا تھا کہ وہ خالص پیشہ ورانہ وجوہاتِ پر شکست کا سراغ لگائے لیکن کمیشن کے سربراہ کو سیکس سے دلچسپی تھی چنانچہ کمیشن نے جنگ کی شکست کا نتیجہ اخلاقی گراوٹ نکالا جس کی کہانی مغربی پاکستان کے لوگوں میں انٹرویو کے دوران کسی نے سنائی تھی
لیکن اس کمیشن نے اس نقطے پہ غور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ آپ پکے نمازی بھی ہوں گے، پاک باز اور پاک طینت مسلمان بھی ہوں تب بھی 34 ہزار کے مقابل ساڑھے 4 لاکھ سپاہ ہو تو آپ کو لڑنے کے لیے اسلحہ بھی چاہیے اور زندہ رہنے کے لیے راشن بھی چاہیے یہ جدید دور ہے اخلاقی گراوٹ کی کہانیاں اور پراپگنڈے سننے والے آپ سے ثبوت مانگتے ہیں
میں 1971 میں جنگی قیدی بنائے گئے نور محمد کی داستان سن کے اس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ اس ناقص ، ادھوری ، عجلت میں تیار کی گئی نا معتبر رپورٹ کو ، تازیانہ بنا کر آج کر ان شہداء اور جانبازوں کی پشت پر مت برساؤ اپنے شہدا کو عزت دو ان کے بےسروسامانی سے لڑی گئ جنگ پہ ان کو داد دو یہ وہ جانباز تھے جن کے ایک ایک کے مقابل 85 بھارتی فوجی اور مکتی باہنی کے گوریلے تھے
سلام ہے 1971 کے جانبازو
میرے وطن کے محافظوں سدا سلامت رہو
تحریر :حجاب رندھاوا