
لاہور ہائیکورٹ نے پاک فوج کو نگران حکومت پنجاب کی جانب سے 10 لاکھ ایکڑ زرعی اراضی لیز پر دینے کے عمل کو غیر قانونی قرار دے دی، ہم پسماندگی کے تالاب کے وہ مینڈک ہیں جو اچھلتے تو بہت ہیں لیکن اس سے نکلنے کی سعی نہیں کرتے، پاکستان کا شمار بدقسمتی سے دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے جو مینجمنٹ فیلئیر کی سب سے بڑی مثال ہےہمارے ہاں ہر طرح کی فصل کے لیے بہترین 4 موسم .. دنیا کا 33 واں بڑے رقبے والا ملک.. بونے اور کاٹنے والے محنت کش ہاتھ ہونے کے باوجود …بہترین بیج کھاد، زمین اور دنیا کا بہترین نہری نظام ہونے کے باوجود یہ 33سانواں بڑے رقبے والا ملک دو وقت کی روٹی کے لیے گندم اگانے سے قاصر ہےوہ تن ڈھانپنے کے لیے کپاس اگانے سے قاصر ہےاگتی ہے تو صرف بھوک اور لوگ بھوک سے بچوں سمیت جان دے دیتے ہیں، لیکن کیا وجہ ہے کہ اتنے وسیع زرعی وسائل کے باوجود پاکستان کی زرعی درآمدات اس وقت دس ارب ڈالر سالانہ سے متجاوز ہیں۔ ہم اپنا زرمبادلہ خوردنی تیل، کپاس، گندم، چینی، چائے اور دالوں میں جھونک رہے قرض لے رہے ہیں اور خوراک خرید رہے ہیں ۔ ہماری زرعی درآمدات پیٹرولیم کی درآمدات کو چھو رہی ہیں۔ ایک وقت تھا جب مذکورہ فصلوں میں پاکستان خودکفیل تھا تاہم ہاوسنگ سوسائٹیز زرعی زمین کو دیمک کی طرح چمٹ گئ زرعی زمین کی جگہ کنکریٹ کے پلازے اور ہاوسنگ سوسائٹیز کھڑی کر دی گئ ہر طرف کنکریٹ ہی کنکریٹ ہے اور غذائی بحران شدت اختیار کر چکا ہے زرعی اجناس کی قیمتوں میں سو گنا نہیں 500 گنا اضافہ ہوچکا ہے جبکہ امپورٹ مافیا کے باعث ہم ایک عرصے سے گندم، کپاس، چینی جیسی پیداوار بھی درآمد کرنے پر مجبور ہیں حتی کہ آلو ٹماٹر پیاز تک امپورٹ کرتے ہیںیہ دو مافیاز کی کارستانی ہیں جو پاکستان میں زراعت کے استحصال کی جڑ ہیںپاکستان میں ججز قبضہ مافیا کی سرپرستی کرتے ہیں درجنوں ججز کے فرنٹ مینز ہاوسنگ سوسائٹیز چلا رہے ہیں ان عدل کے ایوانوں میں بیٹھے جبہ پوشوں کو ہرگز ہرگز زرعی اصلاحات زرعی زمین کی آباد کاری منظور نہیں دوسرے اینڈ پر انھیں امپورٹ مافیا انھیں سپورٹ کرتا ہےجس کی واضع مثال آج کا فیصلہ ہے جس میں جج جسٹس عابد حسین چھٹہ نے ان مافیاز سے مالی فوائد کے پیش نظر پراجیکٹ 10 لاکھ ایکڑ زرعی زمین کو کسانوں کے لیے پھر سے آباد کرنے کے لیے لیز پر دینے کے عمل کو غیر قانونی قرار دے دیا کیونکہ جنبش قلم صاحب بےعدل کے پاس تھی جج صاحب کا کہنا تھا کہ پاکستانی فوج کے پاس کارپوریٹ فارمنگ جیسے معاملات میں الجھنے کے لئے آئینی اور قانونی جواز نہیں ہے۔جج صاحب کیا ٹڈی دل اور کارکے فوج کا کام تھا؟؟ حکومت نے انکی مینجمنٹ دیکھتے ہوے انھیں مدد کے لیے پکارا تھا جہاں بات پاکستان کے تحفظ کی آئے گی چاہے وہ بارڈر ہوں اندرونی بیرونی سکیورٹی مسائل ہوں فوڈ سکیورٹی ہو پاک فوج سینہ سپر کرے گیجج صاحب جب جسٹس محسن اختر کیانی جیسے ججز lake view lane LVL ہاوسنگ سوسائٹیز بنائیں اور آپ ججز کی پوری چین مختلف قبضہ مافیا کی سرپرستی کرے تو یقیناً یہ زرعی اصلاحات والا عمل آپ کے لیے کیسے قابل قبول عمل ہو سکتا ہے، جج صاحب آپ اپنی بلڈرز نسلوں کے لیے ہماری آنے والی نسلوں کو بھوک ننگ میں مت جھونکیے زرعی شعبے کی شرح نمو 1960 میں 4 فیصد تھی جو بتدریج کم ہوتے ہوتے 2022 میں 2.5 فیصد پر آ گئی ہے جس کی وجہ ناقص اصلاحات ہیں۔1998 میں صوبۂ پنجاب کی دیہی آبادی تقریباً 69 فی صد اور شہری آبادی 31 فی صد تھی تاہم 19 برسوں میں دیہی آبادی کی اوسط آبادی کم ہو کر 63 فی صد اور شہری آبادی کی اوسط بڑھ کر 37 فی صد تک ہو گئی ہے۔ 2023 کا غذائی بحران ماہرین کے مطابق شدید ترہو سکتا ہےاگر اس غذائی بحران سے بچنا ہے تو اس کو اپنی پیداواری صلاحیتوں میں اضافہ کرنا ہو گا اور درآمدات و برآمدات کے توازن کو درست رکھنا ہو گا۔ غیر ملکی اشیاء کی نسبت اپنے ملک کی پیداکردہ اشیاء کے استعمال میں اضافہ کرنا بھی ضروری ہے۔ کسانوں کی پیداواری مہارت میں بہتر ی لانی ہوگی، ہمارے ججز کو شنید ہوکہ جب بات فوڈ سکیورٹی کی آتی ہے تو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک اپنی فوج کو آگے لاتے ہیں، اس وقت دنیا کے بیشتر ممالک کی فوج فوڈ سکیورٹی کی محافظ بن چکی ہےچین یوکرائن کی لاکھوں ہیکٹر زمین پر مستقبل قریب میں کاشت کاری شروع کر رہا ہے اور اس کے لیے گزشتہ سال میں نیم فوجی کمپنی شنجياگ پروڈکشن اینڈ کنسٹرکشن کمپنی اور یوکرائن کی كےایس جي ایگرو کے درمیان دستخط ہوئے تھے۔ كےایس جي ایگرو یوکرائن کی بڑی زرعی کمپنیوں میں سے ہےیہی نہیں چین نے اپنی فوجی کمپنیوں کے زریعے جنوبی امریکہ میں بھی زراعت کے شعبے میں خاصی سرمایہ کاری کی ہے۔ یہ اس غذائی بحران کی پیش بندی ہے جس کا دنیا کو سامنا ہے دنیا میں آبادی کے لحاظ سے چین سب سے بڑا ملک ہے اس نے اپنا زرمبادلہ خوراک خریدنے میں جھونکنے کی بجائے خوراک سے زرمبادلہ کمانے کو ترجیح دیچین ناصرف ایک ارب چالیس کروڑ باشندوں کی خوراک کی ضروریات پوری کر رہا ہے بلکہ اس وقت چین عالمی سطح پر بھی زرعی مصنوعات کی فراہمی کا ایک انجن بن چکا ہے، چینی حکومت نے زراعت کے حوالے سے قابل کاشت رقبے کے لیے 120 ملین ٹن ہیکٹرز کی سرخ لکیر مقرر کر رکھی ہے جس پر وہ ہرگز کمپرومائز نہیں کرتی، جبکہ ہمارے ہاں پنجاب میں اس وقت 3.8 ملین ایکڑ بنجر رقبہ ہے جس کو قابل کاشت بنایا جاسکتا ہےلیکن اس پر کام نہیں کرنے دیا جا رہا اگر پاکستان صحیح طریقے سے صرف اپنی زراعت پر ہی بھرپور توجہ دے تو وہ اپنی درآمداتی معیشت کو برآمداتی معیشت سے بدل سکتا ہے پاکستان کو اپنے درآمدی بلوں کی بیرونی ادائیگیوں کے لیے اربوں ڈالر کی ضرورت ہوتی ہے جس کے لیے پاکستان آئی ایم ایف کی سخت شرائط پر قرضے حاصل کرتا ہےہم زمین اور وسائل ہونے کے باوجود ایسے میں کب تک کسی معجزے کا انتظار کریں، پاک فوج نے اس غذائی بحران کو دیکھتے ہوئے حکومت پنجاب سے ملکر پنجاب کی 10 لاکھ ایکڑ بنجر زمین کاشتکاری کے لائق بنانے کا فیصلہ کیا جو کہ آج ایک بےعدل جبہ پوش جج کی قلم کا شکار ہے واضح ہو کہ اس زمین کی ملکیت حکومت پنجاب کی ہی رہے گی فوج کے پاس ملکیت نہیں ہوگی مگر پاک فوج کے زیر انتظام کاشتکاری ہوگی۔ اس منصوبے کا انتظام ریٹائرڈ فوجی افسران کریں گے اور فوج کو اس منصوبے سے کوئی مالی فائدہ نہیں ملے گا بلکہ کاشتکاری سے ہونے والا منافع مقامی لوگوں، پنجاب حکومت اور اس پراجیکٹ میں سرمایہ کاری کرنے والی فرموں کو جائے گا۔یہ غذائی خود کفالت کی جانب پہلا قدم ہے جس سے پاکستان کی برآمدات بڑھے گی درآمدات میں کمی آئے گی زرمبادلہ بچے گا اسے آئندہ بڑھاتے ہوے بلوچستان اور سندھ کی بنجر زمینوں کو بھی قابل کاشت بنایا جائے گا، یاد رکھئے ہم وسائل نہیں مینجمنٹ مسائل کا شکار ہیں یہاں حکومت فوج کی منجمنٹ سے فائدہ اٹھانے کے لیے انھیں اپنی مدد کے لیے بلائے گی چاہے وہ قدرتی آفات ہوں یا ملکی مفاد کا معاملہ یا فوڈ سکیورٹی کے متعلق اقدامات فوج مدد کو پہنچے گیجب ہر ادارہ ہی بد انتظامی کا شکار ہے ایسے میں حکومت کو اس قحط مینجمنٹ میں فوج کی انتظامی صلاحیت سے فائدہ اٹھانا چاہیےہاں ہماری عدالتوں میں 54 ہزار کیسز زیر التوا ہے لاہور ہائیکورٹ کو ہنگامی بنیادوں پر سوچنے کی ضرورت ہے کہ اتنے زیرے التوا کیسز کے ہوتے ہوئے انھیں باقی معاملات میں الجھنے کے لئے کون سا کیڑا چین نہیں لینے دیتا
حجاب رندھاوا