
ضلع شیخوپورہ کی تحصیل نارووال کے ایک گاؤں کوٹ عبداللہ کا. رہائشی نوجوان جنونی قاتل کیسے بن گیا؟
یہ نوجوان خونی واردات کی شام لاہور کے علاقے شاہدرہ سے کوٹ عبداللہ میں واقع گھرپہنچ کرہاتھ میں کلہاڑی، لوہے کا راڈ لے کر نکل پڑتا ہے۔ نوجوان اندھیرے میں چھپ کر لوگوں سے بچ کر اپنے پُرانے گاؤں کوٹ راجپوتاں کا رُخ کرتا ہے۔ راستے میں ایک نالہ ڈیک کی پُلی کو عبور کرتا ہے، کچھ ہی فاصلے پر کھیتوں میں سوئے ہوئے چچا بھتیجے پر وار کر دیتا ہے اور آناً فاناً دونوں کو موت کے گھاٹ اُتار دیتا ہےنوجوان مقتولین کی جیبیں ٹٹولتا ہے، جو کچھ ہاتھ لگتا ہے، نکالتا ہے اور آگے کی طرف بڑھ جاتا ہے۔مقتولین کے پاس رائفل بھی تھی مگر اُس کے حفاظتی استعمال کا اُنھیں موقع ہی نہ مل سکا۔ یہاں سے یہ ساتھ ہی گاؤں ہچڑ میں سوئے ہوئے 4 لوگوں پر باری باری حملہ آور ہوتا ہے۔ چچا بھتیجا ایک حویلی میں سوئے ہوئے تھے، پہلے اُن پر دھاوا بولتا ہے۔ بعدازاں ساتھ ہی ایک شخص اور تھوڑے ہی فاصلے پر کھلے میں سوئے 20 سے 22 سالہ نوجوان فیض رسول جوکہ 6بہنوں کا اکلوتا بھائی تھاکویہاں قتل کرتا ہے اور اس کی جیب سے چابیاں نکال کر الماری سے دِن بھر کا جمع شدہ کیش نکالتا ہے اور واپس کوٹ عبداللہ کے پاس پہنچ جاتا ہے۔
روڈ پر ایک پیٹرول پمپ پر پہنچتا ہے اور ٹائر شاپ پر سوئے نوجوان پر وار کرتا ہے۔ اُس وقت رات کے ڈھائی بج رہے ہوتے ہیں۔اسی اثنا میں لاہور سے ڈیوٹی سرانجام دے کر آنے والا ایک پولیس کا سپاہی ظفر اقبال سٹاپ پر اُترتا ہے اور پیٹرول پمپ سے مختصر فاصلے پر ایک کریانہ سٹور پر کھڑی موٹر سائیکل اُٹھاتا ہے اور اپنے گھر جانے سے پہلے پیٹرول پمپ پر تیل ڈلوانے آتا ہے تو آگے نوجوان کو کھڑا پاتا ہے۔ظفر اقبال اس کو کہتا ہے کہ موٹر سائیکل میں پیٹرول ڈال دو۔ وہ جواب دیتا ہے کہ پیٹرول ختم ہو گیا ہے۔ اسی دوران جب وہ اُس نوجوان کو غور سے دیکھتا ہے تو اُسے پسینے میں ڈوبا اور لوہے کا راڈ تھامے پاتا ہے۔آناً فاناً نوجوان اُس پر حملہ آور ہونے کی کوشش کرتا ہے تو ظفر اقبال موٹر سائیکل بھگا کر تھوڑے فاصلے پر پہنچ کر اُس کو للکارتا ہے اور اپنی پستول نکال کر تان لیتا ہے مگر نوجوان پیٹرول پمپ پر کھڑی موٹر سائیکل کو سٹارٹ کر کے بھاگ پڑتا ہے۔ظفر اقبال ون فائیو پر کال کرتا ہے۔ اس دوران اور لوگ بھی جمع ہو جاتے ہیں اور یہ نوجوان کا تعاقب کرتے ہیں۔ کچھ ہی فاصلے پر نوجوان ایک مدرسے میں گھس جاتا ہے۔ یہاں ظفر اقبال اپنی موٹر سائیکل پر پہنچ جاتا ہے اور اس کو قابو کرنے کی کوشش کرتا ہے اور یوں باقی لوگوں کی مدد سے بعد میں پولیس بھی آ جاتی ہے اور یہ قابو میں آ جاتا ہے۔
گاؤں کے لوگوں نے اس. جنونی قاتل بارے بتایا
ناصر مغل جو ایف ایس سی میں اس کو کیمسٹری پڑھاتے رہے، کا کہنا تھا ’وہ 2018 سے 2022 تک مجھ سے پڑھتا رہا۔ اس کی بہن بھی میری شاگرد تھی۔ اس کی کوئی شکایت کبھی نہ سنی۔ کھیلوں میں حصہ لیتا تھا۔ معاشی طور پر یہ خاندان کمزور تھا مگر متشدد روّیوں کا حامل نہیں تھا۔‘
پرویز اقبال کے سکول میں وہ چند ماہ پڑھاتا رہا ہے۔ اُن کے مطابق بھی ’کبھی کسی نے اس کی کوئی شکایت نہیں کی تھی۔
‘عاطف افتخار بھٹی کا کہنا تھا ’میرے سکول میں ان کے والد بچوں کی پک اینڈ ڈراپ وین کے ڈرائیور تھے مگر بعد میں نشے میں پڑ گئے تو نوکری بھی جاتی رہی۔‘
میاں ارشد کا کہنا تھا کہ ’نشے کی بدولت ہی ان کے والد کی موت ہوئی جبکہ صحافی وحید مغل کا کہنا تھا ’میں نے گاؤں کے لوگوں اور پڑوسیوں سے جان کاری لی مگر چند دِن پہلےتک سب کچھ معمول کے مطابق تھا ۔بس اچانک ہی سب کچھ ہوا۔‘کہانی زبیر نامی شخص کی زبانی شروع کرتے ہیں۔ زبیر اس نوجوان کے گاؤں کے رہائشی ہیں اور آٹھویں کلاس تک یہ نوجوان کے اُستاد بھی رہے ہیں۔زبیر نے ہمیں بتایا کہ ’چار بجے کا وقت تھا۔ میں اس کے گھر گیا۔ فیض رسول کے بھائی نے بتایا کہ وہ اندر کمرے میں ہے۔ یہ اُس وقت ماں سے جھگڑ کر اسے زخمی کر چکا تھا۔ میں گیٹ پر کھڑا تھا۔ یہ پیچھے سے آیا اور لکڑی کا بڑا سا ٹکڑا میرے سرپر مارا۔ میں نیچے گر کر بے ہوش ہو گیا۔‘اس کے بعد کی کہانی میاں ارشد بیان کرتے ہیں۔ میاں ارشد کوٹ عبداللہ کے رہائشی ہیں اور اپنے علاقے میں سیاسی طور پر سرگرم رہتے ہیں۔وہ ہمیں بتاتے ہیں ’جس دِن یہ ماں کو زخمی کرتا ہے، اُسی دِن ماں سمیت دو عورتوں اور چار مردوں کو زخمی کرتا ہے ۔گاؤں کے لوگ اس کو پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ تھک کر اپنے گھر کے سامنے خاموش ہو کر آ کر بیٹھ جاتا ہے۔ لوگ تھپڑ مارتے ہیں اور پولیس کو اطلاع کرتے ہیں مگر جب پولیس نہیں آتی تو کوٹ راجپوتاں میں مقیم چچا کو اطلاع دیتے ہیں اور وہ آ کر اسے لے جاتے ہیں۔‘
فیض رسول کے والد چند ماہ قبل فوت ہوئے۔ کچھ دِن قبل کسی نے فیض کو کہا کہ ان کے والد کی قبر کا ایک حصہ بیٹھ چکا ہے۔یہ قبرستان پہنچے اور دیکھا کہ بارش کی وجہ سے قبر کی ایک سِل نیچے کو جھک گئی ہے۔ انھوں نے سِل تبدیل کی اور مبینہ طور پر والد کی قبر کو کھود دیا اور نماز جنازہ پڑھی۔ پھر اُنھوں نے گھر آ کر یہ واقعہ ماں کو سنایا۔ واقعہ سنانے کے درمیان ہی اچانک طیش میں آ کر ماں پر حملہ کر کے زخمی کر دیا۔ اس کے بعد زبیر نامی شخص آتا ہے جس کو یہ گھر کے دروازے پر سر کے اُوپر ضرب لگا کر زخمی کر دیتا ہے۔قاتل نوجوان فیض رسول سکول میں چند ماہ پڑھاتا رہا ہے۔ اُن کے مطابق بھی ’کبھی کسی نے اس کی کوئی شکایت نہیں کی تھی۔‘جنونی قاتل بارے مذید معلوم ہوا ہے کہ اسکے مرحوم والد گاؤں کے ایک سکول میں بچوں کی پک اینڈ ڈراپ وین کے ڈرائیور تھے مگر بعد میں نشے میں پڑ گئے تو نوکری بھی جاتی رہی.