سنگاپور طرز پر بدحال معیشت کا ون اسٹاپ حل

ملائیشیا اور انڈونیشیا کے درمیان نقشے پر ایک حقیر نکتے کی مانند دکھنے والا
640 مربع کلومیٹر رقبے کا حامل سنگاپور
جو 1965 تک ملائیشیا کا انتہائی پس ماندہ علاقہ ہوتا تھا‘ زمین دلدلی‘ ویران اور بنجر تھی‘ لوگ سست‘ بے کار اور نالائق تھے‘ یہ صرف تین کام کرتے تھے‘ بحری جہازوں سے سامان اتارتے تھے.
چوری چکاری کرتے تھے ‘
یا پھر بحری جہازوں سے چوہے نکال کر کھاتے تھے
اس جیسے 3 سنگاپور جمع کریں تب بھی ایک کراچی نہ بنے۔ وہ سنگاپور آج دنیا کا ٹریڈ سینٹر بن چکا ہے

1965ءمیں ملائشیا سے آزادی حاصل کرنے والا سنگاپور ایک ایسی ” سٹی سٹیٹ “ تھاجسے غربت وافلاس کی تصویر کہاجائے تو غلط نہیں ہوگا۔
سنگاپور کا شمار آج دنیا کی پچیس امیر ترین مملکتوں میں ہوتا ہے
یہ کیسے ممکن ہوا کہ افلاس زدہ سنگاپور کی شرح پیداوار میں برق رفتار اضافے نے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے
سنگاپور کے زرمبادلہ کے فی کس ذخائر دنیا میں تمام ملکوں سے زیادہ ہو گئے ؟

سنگاپور قدرتی وسائل سے آراستہ نہیں ہے لیکن اسکی برآمدات آج 400ارب ڈالر سالانہ ہیں،جبکہ پاکستان کی برآمدات کئی سال سے تقریباً 32ارب ڈالر پر منجمد ہیں

سنگاپور حکومت نے ٹیکس چھوٹ دے کر بیرونی سرمایہ کاروں کی ایک بڑی تعداد کو بھی راغب کیا
مینوفیکچرنگ انڈسٹری اور کاروباری آسانیوں پر بھی توجہ دی۔ 1980ء تک سنگاپور خطے میں مینوفیکچرنگ کا مرکز اور ہارڈ ڈسک ڈرائیوز کا سب سے بڑا پروڈیوسر بن چکا تھا۔
سرکاری ٹیلی کام کمپنیوں کی نجکاری کر دی گئی، انشورنس اور فنانشل سروسز کو مزید آزادی دی گئی جس کے بعد ملٹی نیشنل کمپنیوں نے سنگاپور میں اپنے ریجنل ہیڈکوارٹرز کھولنے شروع کر دیے۔ نتیجتاََ سروسز سیکٹر کا جی ڈی پی میں حصہ 1985ء کے 24 فیصد سے بڑھ 2017ء میں 70 فیصد تک جا پہنچا۔ آج سنگاپور دنیا میں کاروبار کرنے کیلئے سب سے آسان ملکوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

مثال کے طور پر، اقتصادی ترقی بورڈ کا گلوبل انویسٹر پروگرام، سنگاپور میں اپنا کاروبار قائم کرنے کیلئے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو کام کے ویزوں کے حصول کیلئے ایک ون اسٹاپ حل فراہم کرتا ہے۔
سنگاپور میں روزانہ دو نئے ریستوران اور دو اڑھائی درجن کمپنیاں کھلتی ہیں‘ روزانہ کوئی نہ کوئی عالمی فنکشن ہوتا ہے‘ کسی جگہ آرٹ میلہ لگا ہے‘ کسی جگہ اسپورٹس‘ کلچر‘ لائف اسٹائل اور فوڈ کی نمائش چل رہی ہے
سنگاپور میں کسی NOC کی ضرورت نہیں، آپ سرمایہ لائیں اور کاروبار کریں، جو فیکٹری وغیرہ لگائیں گے اس کی تکمیل پر اور پھر سالانہ انسکپشن ہوگی کہ بین الاقوامی سٹینڈرڈز پر پورا اترتے ہیں یا نہیں۔

اسی طرح دبئی ہے۔ لق و دق صحرا، لیکن ساری دنیا وہاں کے ٹیکس فری کاروباری ماحول سے مستفید ہو رہی ہے۔اور شیخ پیسے میں کھیل رہا ہے

دوبئی‘ سنگا پور اور ترکی کا ترقی کے لیے ایک ہی نظریہ رہا کہ دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کو آنے دیں اور کام کرنے دیں‘ کسی سے رقم کے بارے میں نہ پوچھیں صرف آسانی فراہم کریں زمین آپ کی،
افرادی قوت آپ کی،
سرمایہ کسی کا ترقی آپ کی،

جبکہ پاکستان میں 26 وزارتوں، محکموں اور مجاز اتھارٹیز سے NOC (اجازت نامہ ) اور کلیرنس چاہیئے ہوتی ہے جس سے بیرونی سرمایہ دار متنفر ہو کر بھاگ جاتے ہیں
پاکستان نے بھی اب دبئی سنگاپور کی طرز پر زبردست معاشی تبدیلی کا اقدام اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (SIFC) متعارف کروایا ہے – جس میں کاروبار اور سرمایہ کاری کی فضا کو متحرک کرنے کی بے پناہ صلاحیت ہے
اسپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (SIFC) قانونی فریم ورک اور کاروبار میں حائل رکاوٹوں کے لیے ون سٹاپ حل دیتی ہے
کاروباری تحفظ کی یقین دہانی جس کا مقصد مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں میں اعتماد پیدا کرنا، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری (FDI) میں اضافے کی راہ ہموار کرنا اور کرنسی کی قلت اور تجارتی خسارے کے چکر کو توڑنا ہے۔
تین سالوں کے اندر 100 بلین ڈالر کی براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور مالی سال 2035 تک 1 ٹریلین ڈالر کا جی ڈی پی میں حصہ ، SIFC دفاعی پیداوار، زراعت، کان کنی، توانائی سمیت مختلف شعبوں کو ترقی دے گا جس سے بیروزگاری اور غربت کا خاتمہ ہو
پاکستان کی عوام کا اس معاشی بےچینی کے حوالے سے تقاضا تھا کہ فوج تمام سیاست دانوں کو بٹھائے‘30 سال کا پلان بنائے اور اس کے بعد جو اس پلان کی خلاف ورزی کرے اسے پکڑ کر الٹا لٹکا دیں‘ یہ ملک اس کے بغیر نہیں چل سکے گا‘

ایس آئی ایف سی اس پلان کے عین مطابق ہے جس کو تمام پارٹیز کی حمایت و تائید حاصل ہے اب چاہے پی ٹی آئی آئے یا ن لیگ یا پھر پی پی پی یا کوئی اور ہر جماعت SIFC کے معاشی پلان کو اسی طرح چلائے گی
جو لوگ SIFC پر تنقید برائے تنقید کر رہے ہیں یہ اسی “سسٹم” کا حصہ ہیں جو 26 وزارتوں، محکموں اور مجاز اتھارٹیز سے NOC (اجازت نامہ ) اور کلیرنس کے دوران روٹی روزی کماتے ہیں۔ اگر ون ونڈو آپریشن سے “کاروبار کرنے کی آسانی” پیدا کر دی گئی تو اس مافیا کے پیٹ پر لات لگے گی۔اور ان کے ساتھ آواز ملانے والے اجارہ داری مافیا ہیں جو نئے کاروبارِ کے مسابقتی ماحول سے خوف زدہ ہیں
لیکن پاکستان نے اب ان ہڈی خوروں سے صرف نظر کرتے ہوے اپنی ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہی ہونا ہے
حجاب رندھاوا