

• توشہ خانہ کابینہ ڈویژن کے انتظامی کنٹرول کے تحت ایک زیلی محکمہ ہے،آسان الفاظ میں یوں سمجھیے کہ حکمرانوں، ارکان پارلیمنٹ، بیوروکریٹس اور عہدیداروں کو دیگر ممالک کی حکومتوں کے سربراہان، ریاستوں اور غیر ملکی معززین کی طرف سے دیے جانے والے قیمتی تحائف کا اسٹور ہےتوشہ خانہ کیس عمران خان کی حکومت میں ہی شروع ہوا سال 2020 کے آخر میں پاکستان انفارمیشن کمیشن کے سامنے رانا ابرار خالد نامی صحافی کی ایک درخواست آئی جس میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان اور وزراء کو ملنے والے تحائف کی تفصیل مانگی گئی تھیں۔رانا ابرار اس خبر کی تلاش میں تھا جو کہ خلیجی ملک کی طرف سے دئیے گئے تحفے کے بکنے کے بارے میں تھی رانا ابرار نے اس انفارمیشن تک رسائی کے لیے ڈیڑھ سال قانونی جنگ لڑی حکومت یہ تفصیل بتانے سے گریزاں رہی حتی کہ معاملہ بڑھتا گیا 17 ستمبر 2021 کو PTI حکومت نے عمران خان کو بطور PM ملنے والے تحائف کی تفصیلات دینے سے ہائیکورٹ کے سامنے یہ کہہ کر انکار کیا “معلومات دینے سے بین الاقوامی تعلقات کے تناظر میں قومی مفاد کو نقصان ہو گا ایسا کرنے سے بین الاقوامی تعلقات خطرے میں پڑ جائیں گے، یہاں تک کہ پاکستان انفارمیشن کمیشن (PIC) نے معلومات دینے کا حکم دیا ۔ عمران خان کو حلف اٹھانے کے بعد 18 ستمبر 2018 کو سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی طرف سے اپنے پہلے دورہ سعودی عرب کے دوران 85 ملین روپے کی قیمتی گھڑی دی گئی جو بشری بیبی اور عمران خان نے صرف 17 ملین روپے دے کر اپنے پاس رکھ لی ۔عمران خان نے خلیجی ممالک کے معززین کی طرف سے تحفے میں دی گئی تین گھڑیاں ایک مقامی گھڑی ڈیلر کو غیر قانونی طور پر فروخت کر کے 36 ملین روپے کمائے۔ • سب سے مہنگی گھڑی — جس کی قیمت 101 ملین روپے سے زیادہ تھی — کو اس وقت کے وزیر اعظم نے قیمت کے 20 فیصد ادا کرکے رکھ لیاان تحائف کی ایک سرکاری انکوائری کی تفصیلات کے مطابق، خان نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں ان ڈائمنڈ گھڑیوں سے لاکھوں روپے کمائے جن کی مجموعی مالیت 154 ملین روپے تھی توشہ خانہ سے لی گئی انتہائی قیمتی گھڑیاں اپنی جیب سے خریدنے کے بجائے، عمران خان نے پہلے گھڑیاں فروخت کیں اور پھر ان کا 20 فیصد سرکاری خزانے میں جمع کرایا۔اس میں ایک دلچسپ امر یہ ہے کہ قیمتوں کا یہ تعین ایولیوشن کمیٹی نے کیا تھا جو عمران خان نے خود ہی تشکیل دی تھی۔مجموعی طور پر 13 کروڑ 89 لاکھ 49 ہزار 400 روپے مالیت کے تحائف عمران خان اور ان کی اہلیہ کو ملے جنہیں توشہ خانے سے 3 کروڑ سے زائد رقم کے عوض خریدا گیا.حیرت انگیز طور پر سابق وفاقی وزراء اسد عمر،غلام سرور ،عمر ایوب خان اور مرزا شہزاد اکبر بیگ کو ملنے والے تحائف کی کوئی معلومات ریکارڈ میں موجود نہیں . عمران خان کے دوست عمر فاروق ،شاہ محمود قریشی ، حفیظ شیخ ،شیخ رشید ، شاہ فرمان،سینٹر فیصل جاوید ،حماد اظہر،ملک امین اسلم، شوکت ترین اور زلفی بخاری بھی عمران خان کے ساتھ سعودی عرب دورے کر چکے ہیں .ان میں سے کسی نے ملنے والے تحائف ظاہر نہیں کئے. رقم ادا کئے بغیر گھر لے گئے .عمران اور بشریٰ نے تھوڑی سی رقم ادا کر کے سات رولیکس گھڑیاں، متعدد سونے کے ہار، بریسلیٹ، انگوٹھیاں، متعدد ہیروں کی چینز ، سونے کے قلم قیمتی تسبیح سونے کے سکے اور یہاں تک کہ ڈنر سیٹ بھی اپنے پاس رکھے۔ • عمران خان اور بشریٰ بیبی دونوں نے ان قیمتی تحائف کو پاکستان میں ٹیکس حکام سے 2 سال سے زائد عرصے تک چھپایا جب تک کہ یہ اسکینڈل سامنے نا آ گیا ۔ انہوں نے کبھی بھی تمام اشیاء کا اعلان نہیں کیا۔تحفہ بیچنا اخلاقی طور پر گرا ہوا عمل تو ہے ہی لیکن تحفوں کو بیچنے کا کاروبار پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سامنے آیا ہے بہت سے تحائف ایسے ہیں جو براہ راست اس وقت کے وزیر اعظم اور پروٹوکول افسر کو دیئے جاتے ہیں وہ بھی اس وقت نہیں دکھائے گئے تھے۔ ایسے تحائف کو فہرست میں درج نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے اس ریکارڈ میں سابق وزیر اعظم عمران خان کو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی طرف سے تحفے میں ملنے والی گولڈ پلیٹڈ کلاشنکوف شامل نہیں ہے۔ • ذیل میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کو ملنے والے تحائف کی تفصیل، ان کی قیمت، اور تحائف کو برقرار رکھنے کے لیے خان کی جانب سے ادا کی گئی رقم کی تفصیل• 110000 روپے مالیت کا نوریٹیک ڈنر سیٹ (26 پیس) 4-3-21 کو موصول ہوا جو محض 40000 ادا کرکے رکھ لیا گیا • ایک اور نوریٹیک ڈنر سیٹ (34 پیس ) مالیت 100000 روپے اور کف لنکس 56 لاکھ 70 ہزار روپے 4-3-2021 کو موصول ہوے اور یہ سب 45000 روپے کی رقم ادا کرکے رکھ لیا گیاباقی تحائف جو بشری بیبی اور عمران خان نے معمولی قیمت کے عوض رکھے انکی تفصیل اس طرح سے ہےایک واچ رولیکس جنٹ 900000 روپے؛ خواتین کی ایک رولیکس گھڑی 400000 روپے؛ ایک آئی فون 210000 روپے دو مردانہ سوٹ 30000 روپے ایک پرفیوم ڈولس اینڈ گابا 35000 روپے؛ دو پرفیوم Bvlgari روپے 30000 اور 26000 روپے ایک پرفیوم روبی 40000 روپےایک والٹ سیمسونائٹ 6000 روپے ایک والٹ اگنر خواتین 18000 روپے ایک بال پین ماؤنٹ بلینک 28000 روپے 9-11-2018 کو موصول ہوا۔ یہ تمام اشیاء صرف 3,38600 روپے کی ادائیگی کرکے رکھ لی گئی الیکشن کمیشن کے مطابق عمران خان نے دوست ممالک سے توشہ خانہ میں حاصل ہونے والے بیش قیمت تحائف کو الیکشن کمیشن میں جمع کروائے گئے اپنے سالانہ گوشواروں میں دو سال تک ظاہر نہیں کیا اور یہ تحائف صرف سال 2020-21 کے گوشواروں میں اس وقت ظاہر کیے گئے جب توشہ خانہ سکینڈل اخبارات کی زینت بن گیاعمران خان دوسرے سیاست دانوں سے قدرے مختلف لگا کرتے تھے لیکن توشہ خانہ کیس نے ان کے اس تاثر کو کسی قدر متاثر ضرور کیا ہے کیا یہ تحفوں کو بیچنے کا کاروبار بطور وزیر اعظم ان کے شایانِ شان تھا؟؟؟ کیا اس سے پاکستان کی جگ ہنسائی نہیں ہوئی؟؟؟وہ مخصوص صحافی جو پی ٹی آئی دور میں فوائد اٹھاتے رہے پی ٹی آئی حکومت جانے کے بعد ریاستی اداروں کو نشانہ بنا کر توشہ خانہ کیس کو اسٹیبلشمنٹ کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں ان سے سوال کیا جانا چاہیے کرپشن تو کرپشن ہے اور ہر شکل میں بری ہے چاہے پیپلزپارٹی کرے پی ٹی آئی کرے یا ن لیگ کرے آپ بطور صحافی کسی بھی پارٹی کی کرپشن کا دفاع کیسے کر سکتے ہیں .اس کیس کے بعد جلد از جلد پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے توشہ خانہ کیسز کے فیصلے بھی ہونے چاہیئےآصف زرداری کی بطور صدر متحدہ عرب امارات سے تحفے میں ملنے والی آرمڈ کار بی ایم ڈبلیو 750 ‘Li’ 2005، لیکس جیپ 2007 اور لیبیا سے تحفے ملنے والی بی ایم ڈبلیو 760 Li 2008 توشہ خانہ سے خریدی گاڑیوں کے کیسز کے فیصلے بھی جلد از جلد آنے چاہئیں تاکہ عوام ہر پارٹی کے ڈاکے کی تفصیل جان سکےایک فریق کی کرپشن حلال اور دوسرے کی حرام کیسے ہو سکتی ہےتحریر حجاب رندھاوا توشہ خانہ کیس کیا ہے • توشہ خانہ کابینہ ڈویژن کے انتظامی کنٹرول کے تحت ایک زیلی محکمہ ہے،آسان الفاظ میں یوں سمجھیے کہ حکمرانوں، ارکان پارلیمنٹ، بیوروکریٹس اور عہدیداروں کو دیگر ممالک کی حکومتوں کے سربراہان، ریاستوں اور غیر ملکی معززین کی طرف سے دیے جانے والے قیمتی تحائف کا اسٹور ہےتوشہ خانہ کیس عمران خان کی حکومت میں ہی شروع ہوا سال 2020 کے آخر میں پاکستان انفارمیشن کمیشن کے سامنے رانا ابرار خالد نامی صحافی کی ایک درخواست آئی جس میں اس وقت کے وزیراعظم عمران خان اور وزراء کو ملنے والے تحائف کی تفصیل مانگی گئی تھیں۔رانا ابرار اس خبر کی تلاش میں تھا جو کہ خلیجی ملک کی طرف سے دئیے گئے تحفے کے بکنے کے بارے میں تھی رانا ابرار نے اس انفارمیشن تک رسائی کے لیے ڈیڑھ سال قانونی جنگ لڑی حکومت یہ تفصیل بتانے سے گریزاں رہی حتی کہ معاملہ بڑھتا گیا 17 ستمبر 2021 کو PTI حکومت نے عمران خان کو بطور PM ملنے والے تحائف کی تفصیلات دینے سے ہائیکورٹ کے سامنے یہ کہہ کر انکار کیا “معلومات دینے سے بین الاقوامی تعلقات کے تناظر میں قومی مفاد کو نقصان ہو گا ایسا کرنے سے بین الاقوامی تعلقات خطرے میں پڑ جائیں گے، یہاں تک کہ پاکستان انفارمیشن کمیشن (PIC) نے معلومات دینے کا حکم دیا ۔ عمران خان کو حلف اٹھانے کے بعد 18 ستمبر 2018 کو سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی طرف سے اپنے پہلے دورہ سعودی عرب کے دوران 85 ملین روپے کی قیمتی گھڑی دی گئی جو بشری بیبی اور عمران خان نے صرف 17 ملین روپے دے کر اپنے پاس رکھ لی ۔عمران خان نے خلیجی ممالک کے معززین کی طرف سے تحفے میں دی گئی تین گھڑیاں ایک مقامی گھڑی ڈیلر کو غیر قانونی طور پر فروخت کر کے 36 ملین روپے کمائے۔ • سب سے مہنگی گھڑی — جس کی قیمت 101 ملین روپے سے زیادہ تھی — کو اس وقت کے وزیر اعظم نے قیمت کے 20 فیصد ادا کرکے رکھ لیاان تحائف کی ایک سرکاری انکوائری کی تفصیلات کے مطابق، خان نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں ان ڈائمنڈ گھڑیوں سے لاکھوں روپے کمائے جن کی مجموعی مالیت 154 ملین روپے تھی توشہ خانہ سے لی گئی انتہائی قیمتی گھڑیاں اپنی جیب سے خریدنے کے بجائے، عمران خان نے پہلے گھڑیاں فروخت کیں اور پھر ان کا 20 فیصد سرکاری خزانے میں جمع کرایا۔اس میں ایک دلچسپ امر یہ ہے کہ قیمتوں کا یہ تعین ایولیوشن کمیٹی نے کیا تھا جو عمران خان نے خود ہی تشکیل دی تھی۔مجموعی طور پر 13 کروڑ 89 لاکھ 49 ہزار 400 روپے مالیت کے تحائف عمران خان اور ان کی اہلیہ کو ملے جنہیں توشہ خانے سے 3 کروڑ سے زائد رقم کے عوض خریدا گیا.حیرت انگیز طور پر سابق وفاقی وزراء اسد عمر،غلام سرور ،عمر ایوب خان اور مرزا شہزاد اکبر بیگ کو ملنے والے تحائف کی کوئی معلومات ریکارڈ میں موجود نہیں . عمران خان کے دوست عمر فاروق ،شاہ محمود قریشی ، حفیظ شیخ ،شیخ رشید ، شاہ فرمان،سینٹر فیصل جاوید ،حماد اظہر،ملک امین اسلم، شوکت ترین اور زلفی بخاری بھی عمران خان کے ساتھ سعودی عرب دورے کر چکے ہیں .ان میں سے کسی نے ملنے والے تحائف ظاہر نہیں کئے. رقم ادا کئے بغیر گھر لے گئے .عمران اور بشریٰ نے تھوڑی سی رقم ادا کر کے سات رولیکس گھڑیاں، متعدد سونے کے ہار، بریسلیٹ، انگوٹھیاں، متعدد ہیروں کی چینز ، سونے کے قلم قیمتی تسبیح سونے کے سکے اور یہاں تک کہ ڈنر سیٹ بھی اپنے پاس رکھے۔ • عمران خان اور بشریٰ بیبی دونوں نے ان قیمتی تحائف کو پاکستان میں ٹیکس حکام سے 2 سال سے زائد عرصے تک چھپایا جب تک کہ یہ اسکینڈل سامنے نا آ گیا ۔ انہوں نے کبھی بھی تمام اشیاء کا اعلان نہیں کیا۔تحفہ بیچنا اخلاقی طور پر گرا ہوا عمل تو ہے ہی لیکن تحفوں کو بیچنے کا کاروبار پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سامنے آیا ہے بہت سے تحائف ایسے ہیں جو براہ راست اس وقت کے وزیر اعظم اور پروٹوکول افسر کو دیئے جاتے ہیں وہ بھی اس وقت نہیں دکھائے گئے تھے۔ ایسے تحائف کو فہرست میں درج نہیں کیا جا سکتا۔ اس لیے اس ریکارڈ میں سابق وزیر اعظم عمران خان کو سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی طرف سے تحفے میں ملنے والی گولڈ پلیٹڈ کلاشنکوف شامل نہیں ہے۔ • ذیل میں عمران خان اور بشریٰ بی بی کو ملنے والے تحائف کی تفصیل، ان کی قیمت، اور تحائف کو برقرار رکھنے کے لیے خان کی جانب سے ادا کی گئی رقم کی تفصیل• 110000 روپے مالیت کا نوریٹیک ڈنر سیٹ (26 پیس) 4-3-21 کو موصول ہوا جو محض 40000 ادا کرکے رکھ لیا گیا • ایک اور نوریٹیک ڈنر سیٹ (34 پیس ) مالیت 100000 روپے اور کف لنکس 56 لاکھ 70 ہزار روپے 4-3-2021 کو موصول ہوے اور یہ سب 45000 روپے کی رقم ادا کرکے رکھ لیا گیاباقی تحائف جو بشری بیبی اور عمران خان نے معمولی قیمت کے عوض رکھے انکی تفصیل اس طرح سے ہےایک واچ رولیکس جنٹ 900000 روپے؛ خواتین کی ایک رولیکس گھڑی 400000 روپے؛ ایک آئی فون 210000 روپے دو مردانہ سوٹ 30000 روپے ایک پرفیوم ڈولس اینڈ گابا 35000 روپے؛ دو پرفیوم Bvlgari روپے 30000 اور 26000 روپے ایک پرفیوم روبی 40000 روپےایک والٹ سیمسونائٹ 6000 روپے ایک والٹ اگنر خواتین 18000 روپے ایک بال پین ماؤنٹ بلینک 28000 روپے 9-11-2018 کو موصول ہوا۔ یہ تمام اشیاء صرف 3,38600 روپے کی ادائیگی کرکے رکھ لی گئی الیکشن کمیشن کے مطابق عمران خان نے دوست ممالک سے توشہ خانہ میں حاصل ہونے والے بیش قیمت تحائف کو الیکشن کمیشن میں جمع کروائے گئے اپنے سالانہ گوشواروں میں دو سال تک ظاہر نہیں کیا اور یہ تحائف صرف سال 2020-21 کے گوشواروں میں اس وقت ظاہر کیے گئے جب توشہ خانہ سکینڈل اخبارات کی زینت بن گیاعمران خان دوسرے سیاست دانوں سے قدرے مختلف لگا کرتے تھے لیکن توشہ خانہ کیس نے ان کے اس تاثر کو کسی قدر متاثر ضرور کیا ہے کیا یہ تحفوں کو بیچنے کا کاروبار بطور وزیر اعظم ان کے شایانِ شان تھا؟؟؟ کیا اس سے پاکستان کی جگ ہنسائی نہیں ہوئی؟؟؟وہ مخصوص صحافی جو پی ٹی آئی دور میں فوائد اٹھاتے رہے پی ٹی آئی حکومت جانے کے بعد ریاستی اداروں کو نشانہ بنا کر توشہ خانہ کیس کو اسٹیبلشمنٹ کے کھاتے میں ڈال رہے ہیں ان سے سوال کیا جانا چاہیے کرپشن تو کرپشن ہے اور ہر شکل میں بری ہے چاہے پیپلزپارٹی کرے پی ٹی آئی کرے یا ن لیگ کرے آپ بطور صحافی کسی بھی پارٹی کی کرپشن کا دفاع کیسے کر سکتے ہیں .اس کیس کے بعد جلد از جلد پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے توشہ خانہ کیسز کے فیصلے بھی ہونے چاہیئےآصف زرداری کی بطور صدر متحدہ عرب امارات سے تحفے میں ملنے والی آرمڈ کار بی ایم ڈبلیو 750 ‘Li’ 2005، لیکس جیپ 2007 اور لیبیا سے تحفے ملنے والی بی ایم ڈبلیو 760 Li 2008 توشہ خانہ سے خریدی گاڑیوں کے کیسز کے فیصلے بھی جلد از جلد آنے چاہئیں تاکہ عوام ہر پارٹی کے ڈاکے کی تفصیل جان سکےایک فریق کی کرپشن حلال اور دوسرے کی حرام کیسے ہو سکتی ہے
تحریر حجاب رندھاوا