
ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے اہم مشترکہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ
کانفرنس ایک ایسے موقع پر کی جا رہی ہے جب حقائق کا صحیح ادراک بہت ضروری ہے تاکہ فیکٹ، فکش اور رائے میں تفریق کی جا سکے اور سچ سب کے سامنے لایا جا سکے.

آج کی پریس کانفرنس کا مقصد سینئر اور ممتاز صحافی ارشد شریف کی کینیا میں وفات اور اس سے جڑے حالات و واقعات کے بارے میں آپ کو کچھ آگاہی دینا ہے
آرمی چیف نے 11 مارچ کو کامرہ میں اس وقت کے وزیراعظم سے سائفر کا خود ذکر کیا تب سابق وزیراعظم نے سائفر پر کہا کہ کوئی بڑی بات نہیں
ہمارے لیے یہ حیران کن تھا جب 27مارچ اسلام آباد کے جلسے میں ڈرامائی انداز میں کاغذ کا ایک ٹکڑا لہرایا اور ڈرامائی انداز میں ایک ایسا بیانیہ دینے کی کوشش کی گئی جس کا حقیقت سے دور دور تک کوئی واسطہ نہیں تھا۔

سائفر کے حوالے سے حال ہی میں کئی حقائق منظر عام پر آ چکے ہیں جس نے اس کھوکھلی اور من گھڑت کہانی کو بے نقاب کر دیا ہے، پاکستانی سفیر کی رائے کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا گیا
سائفر سے متعلق من گھڑت کہانی سنائی گئی، آئی ایس آئی کو سائفر سے متعلق کسی سازش کے شواہد نہیں ملے،
ہم حقائق قوم کے سامنے لانا چاہتے تھے لیکن ہم نے اس وقت کی حکومت پر چھوڑ دیا کہ وہ آئی ایس آئی کی جانب سے کی گئی ان تحقیقات کو منظر عام پر لائے لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ پاکستان کے اداروں بالخصوص فوج کی قیادت کو نشانہ بنایا گیا مزید افواہیں اور جھوٹی خبریں پھیلائی گئیں جس کا مقصد سیاسی فائدہ حاصل کرنا اور ایک مخصوص بیانیہ تشکیل دینا تھا کہ حکومت کے خلاف آئینی، قانونی اور سیاسی معاملے کے بجائے عدم اعتماد کی تحریک ’رجیم چینج آپریشن‘ کا حصہ تھی۔

پھر اس حوالے سے امریکا کے دنیا بھر میں رجیم چینج آپریشن کے حوالے دیے گئے اور ان کو پاکستان میں حکومت کی تبدیلی سے جوڑ دیا گیا، اداروں کو نشانہ بنایا گیا اور ہر چیز کو غداری اور رجیم چینج آپریشن سے جوڑ دیا گیا
نیشنل سیکیورٹی کی میٹنگز اور اعلامیے کو غلط انداز میں پیش کیا گیا حتیٰ کہ دوسرے اجلاس میں اسد مجید کے حوالے سے من گھڑت خبر بھی چلائی گئی، پاکستان آرمی سے سیاسی مداخلت کی توقع کی گئی جوکہ آئین پاکستان کے خلاف ہے، نیوٹرل اور اے-پولیٹیکل جیسے الفاظ کو گالی بنا دیا گیا۔
اس تمام پروپگینڈے کے باوجود ادارے اور خاص طور پر آرمی چیف نے نہایت تحمل کا مظاہرہ کیا، ہم نے ہر ممکن کوشش کی کہ سیاستدان آپس میں بیٹھ کر خود مسائل کا حل نکالیں لیکن ایسا ممکن نہ ہوسکا
یہ بھی کہا گیا کہ سائفر کو چھپایا گیا، سوال یہ ہے کہ کیا فارن آفس نے سائفر چھپایا؟ جو اس وقت سائفر ہینڈل کرنے کے ذمہ دار تھے ان کے خلاف کیا ایکشن لیا گیا؟ اگر نہیں لیا گیا تو کیوں نہیں لیا گیا؟۔
فوج کیخلاف میڈیا ٹرائل میں اے آر وائی چینل نے بالخصوص پاکستان آرمی اور لیڈرشپ کے حوالے سے ایک جھوٹے اور سازشی بیانیے کو فروغ دینے میں ایک سپن ڈاکٹر کا کردار ادا کیا اور ایجنڈا سیٹنگ کے ذریعہ فوج کے خلاف ایک مخصوص بیانیہ کو پروان چڑھایا

ارشد شریف کی وفات ایک انتہائی اندوہناک واقعہ ہے اور ہم سب کو اس کا شدید دکھ ہے، اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے، دکھ اور تکلیف کی اس گھڑی میں ہم سب ان کے ساتھ ہیں۔
ارشد شریف پاکستانی صحافت کے آئیکون تھےارشد شریف شہید کے بھائی تھے
دیکھنا ہو گا کہ ارشد شریف کو ملک سے باہر جانے پر کس نے مجبور کیا،
سلمان اقبال نے شہباز گل کی گرفتاری کے بعد عماد یوسف کو کہا ارشد شریف کو باہر بھیج دیا جائے، ( اس حوالے سے پریس کانفرنس میں واٹس ایپ میسجز کے امیج دکھائے گئے)
ہماری اطلاعات کے مطابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کی خاص ہدایت پر 5 اگست کو تھریٹ الرٹ جاری کیا گیا، اس تھریٹ الرٹ سے سکیورٹی اداروں سےکوئی معلومات شیئر نہیں کی گئیں،
اس سےظاہر ہوتا ہے کہ تھریٹ الرٹ مخصوص سوچ کے تحت جاری کیا گیا، کے پی حکومت نے ارشد شریف کو باچا خان ائیرپورٹ تک مکمل پروٹوکول دیا۔ تھریٹ الرٹ سے لگتا ہے ارشد شریف کو ملک چھوڑنے پر مجبور کرنا تھا،
ارشد شریف ملک چھوڑ کر نہیں جانا چاہتے تھے، ان کو بار بار باور کرایا جاتا رہا کہ ان کی جان کو خطرہ لاحق ہے”۔
ملکی اداروں نے ارشد کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔ اگر حکومت روکنا چاہتی تو وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے کے ذریعے ارشد شریف کو روکا جا سکتا تھا
ارشد شریف کو دبئی سے جانے پر کس نے مجبور کیا ؟
ہماری اطلاع کے مطابق ارشد شریف کو سرکاری سطح پر دبئی جانے پر مجبور نہیں کیا گیا۔ عرب امارات میں ارشد شریف کے قیام و طعام کا کون بندوبست کر رہا تھا
ارشد شریف کو کینیا جانے کا کیوں کہا گیا اور ارشد شریف کو دبئی سے جانے پر کس نے مجبور کیا ؟ اور بھی تو 34 ممالک ہیں جہاں پاکستانیوں کے لیے ویزا فری انٹری ہے۔
کینیا پولیس نے تو انہیں پہچانا ہی نہیں تو ان کی وفات کی خبر سب سے پہلے کس نے اور کس کو دی
ٹریول پلین کے مطابق 9 ستمبر 2022 کو ارشد شریف کو واپس آنا تھا۔ ارشد شریف نے اداروں پر بہت تنقید کی لیکن اس کے باوجود ان سے کوئی مسئلہ نہیں تھا اور سائفر معاملے کے بعد بھی ارشد شریف پاکستان میں ہی رہے
ارشد شریف کی زندگی کو پاکستان میں کوئی خطرہ نہیں تھا اور ارشد شریف کے خاندان میں غازی اور شہید بھی ہیں
کئی دیگر صحافی بھی اس پر بات کرتے تھے لیکن وہ باہر نہیں گئے ،آج بھی وہ بہت سخت سوالات اٹھا رہے ہیں اور یہ ان کا آئینی حق ہے، تمام چینلز سے جب بھی ہم نے بات کی تو کہا کہ سائفر کو لیکر کسی بھی ادارے پر من گھڑت اور بنا کسی ثبوت کے کسی قسم کا کوئی الزام نہ لگایا جائے ، اور فوج کے اے پولیٹکل سٹانس کو متنازعہ نہ بنایا جائے
ارشد شریف کی موت کی اعلیٰ سطح پر تحقیقات ہونی چاہیے، ان تمام حالات و واقعات میں اے آر وائی کے چیف ایگزیکٹو سلمان اقبال کا ذکر بار بار آتا ہے، انہیں واپس پاکستان لایا جائے اور شامل تفتیش کیا جائے، ہم سب کو انکوائری کمیشن کا انتظار کرنا چاہیے۔
تحقیقات کے لیے نمائندوں اور ماہرین کو بھی شامل کرنا چاہیے اور اگر ارشد شریف کیس منطقی انجام تک نہ پہنچا تو اس کا بہت نقصان ہو گا۔
ہم سے غلطیاں ہو سکتی ہیں ہم کمزور ہو سکتے ہیں لیکن ہم غدار ہرگز نہیں ہو سکتے
ہم سے جو غلطیاں ہوئیں ہم 20 سال سے انھیں اپنے خون سے دھو رہے ہیں
30,35سال نوکرئ کے بعد کوئی غداری کا طوق لگا کر گھر نہیں جانا چاہتا۔۔ہم کبھی بطور ادارہ قوم کو مایوس نہیں کریں گے
….
ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم
….
مجھے احساس ہے کہ آپ سب مجھے اپنے درمیان دیکھ کر حیران ہیں، میں آپ سب کی حیرانی کو اچھی طرح سمجھ سکتا ہوں، میری ذاتی تصاویر اور تشہیر پر میری پالیسی ایک سال سے واضح ہے جس پر میں اور میری ایجنسی سختی سے پابند ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ میرا منصب اور میرے کام کی نوعیت ایسی ہے کہ مجھے اور میری ایجنسی کو پس منظر میں رہنا ہے، لیکن آج کا دن کچھ مختلف ہے، آج میں اپنی ذات کے لیے نہیں اپنے ادارے کے لیے آیا ہوں، جس کے جوان دن رات اس وطن کی خاطر اپنے جانوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں، پوری دنیا میں پاکستان کی دفاع کا ہراول دستہ بن کر کام کرتے ہیں۔
جب ان جوانوں کو جھوٹ کی بنیاد پر بلاجواز تحضیک اور تنقید کا نشانہ بنایا گیا، لہٰذا اس ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے میں خاموش نہیں رہ سکتا، جب ایک جانب سے جھوٹ اتنی روانی سے بولا جائے کہ ملک میں فساد کا خطرہ ہو تو سچ کی طویل خاموشی بھی ٹھیک نہیں ہے، میں کوشش کروں گا کہ بلا ضرورت سچ نہ بولوں، قوم نے میرے منصب اور مجھ پر یہ بوجھ ڈالا ہے کہ میں ان رازوں کو اپنے سینے میں لے کر قبر میں چلا جاؤں لیکن جہاں ضرورت محسوس ہوگی میں وہ راز آپ کے سامنے رکھوں گا تاکہ اپنے جوانوں اور شہدا کا دفاع کر سکوں۔
مجھے منظر عام پر آنا پڑا کیونکہ ملک میں فتنہ و فساد کا خطرہ ہے اور جھوٹ اتنی روانی و فراوانی سے بولا جارہا ہے کہ اسے ختم کرنے کیلئے آنا پڑا
نیوٹرل، غدار، میر صادق، میر جعفر اس لئے نہیں کہا گیا کہ ہم نے غداری کی بلکہ اس لئے کہا گیا کہ غیر قانونی کام سے انکار کیا
آرمی چیف کو مارچ کے مہینے میں (جب وزیراعظم عمران خان تھے) میرے سامنے توسیع کی پیش کش کی گئی مگر انہوں نے انکار کر دیا
میں یہ ضرور پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپکا دل. مطمئن ہے کہ آپ کا سپہ سالار غدار ہے میر جعفر ہے تو. ماضی قریب میں اتنی تعریفوں کے پل کیوں باندھتے تھے آپ؟ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپکا سپہ سالار غدار ہے میر جعفر ہے تو اسکی مدت ملازمت میں اتنی توسیع کیوں دے رہے تھے
اگر آرمی چیف غدار ہیں تو عمران خان نے انہیں تاحیات توسیع کی پیش کش کیوں کی ؟؟ اب بھی ان سے کیوں ملتے ہیں؟؟
ممکن نہی کہ رات کی تاریکی میں ہم سے ملا جائے غیر آئینی خواہشات کا اظہار کیا جائے اور دن کی روشنی میں گالیاں دی جائیں
اس سال مارچ سےہم پربہت پریشر تھا، ہم نے فیصلہ کیا ہوا ہےخودکو آئینی کردار تک محدود رکھنا ہے،اس فیصلے میں وہ تمام شامل تھے جنھوں نے آئندہ 15 سال تک فوج کی قیادت کرنی ہے جنرل باجوہ چاہتےتو اپنےآخری چھ سات مہینے سکون سےگزارسکتے تھے لیکن جنرل باجوہ نے(غیر جانبدار) رہنے کا فیصلہ ملک اورادارے کےحق میں کیا، جنرل باجوہ اوران کے بچوں پرغلیظ تنقیدکی گئی۔
ارشد شریف کی زندگی کو پاکستان میں کوئی خطرہ نہین تھا یہ حقائق کی بنیاد پر بتا رہا ہوں
ارشد شریف ہمارے ساتھ رابطہ میں تھے اور پاکستان میں انکی جان کو کوئی خطرہ نہیں تھا
ارشد شریف کے قتل کی کینیا میں بھی انکوائری ہو رہی ہے اور میں کینیا کے اپنے ہم منصب سے رابطے میں ہوں۔ ابتدائی تحقیقات کے مطابق شناخت کی غلطی کی وجہ سے یہ واقعہ پیش آیا تاہم شناخت کی غلطی اور قتل کے معاملے پر ہم اور حکومت پاکستان مطمئن نہیں ہیں
“مارچ کے مہینے میں سوشل میڈیا پر میرے خلاف غلیظ مہم چلائی گئی میں نے اگر اپنے لیے سامنے آنا ہوتا تو اس وقت آتا لیکن میں اپنے لیے سامنے نہیں آیا اب سامنے آیا ہوں
ڈی جی آئی ایس پی اور ڈی جی آئی ایس آئی کی پریس کانفرنس کا خلاصہ