
تمیمی کے قلم سے______________ 23اکتوبر رات گئے پاکستان کے معروف صحافی ارشد شریف کی کینیا میں ہلاکت کی خبر جنگل کی آگ کی طرح دنیا بھر میں پھیل گئی اورامریکی اخبار دی گارڈین”سے لیکر کینیا کے قومی اخبار دی سٹار اور سوشل میڈیا میں ہر سُو شہ سرخی پر چھا گئی، تحریک انصاف کی جانب سے سے اس ہلاکت کو پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ سے جوڑنے کی مہم کا آغاز کردیا گیا

اور. کہا گیا کہ ارشد شریف کو ملک چھوڑنے پر پاکستان کے حساس اداروں نے مجبور کیا جبکہ ارشد شریف کی دوسری اہلیہ جویریہ صدیق نے سوشل میڈیا پر وضاحت کی کہ انکے شوہر کو6 ماہ پہلےطالبان نےقتل کی دھمکیاں دیں، ہمیں KPKحکومت نے اس حوالے سے بتایاجسکےبعدارشد دبئی چلےگئےتھے۔انہوں نےکہاہماری طالبان کےساتھ کیادشمنی ہے؟ارشدکو دبئی میں خطرہ تھا،انکےقاتلوں نےوہاں بھی پیچھا کیا, تاہم تحریک انصاف کی جانب سے سے قومی سلامتی کے اداروں پر من گھڑت الزامات کا سلسلہ شروع رہا اسی اثناء میں عمران خان نے پشاور میں وکلاء کنونشن سے خطاب میں اعتراف کیا کہ “مجھے انفارمیشن ملی تھی کہ ارشد شریف کو مارنے لگے ہیں کہ وہ سچ نہ بولے، میں نے ہی سینئر صحافی کو کہا کہ ملک سے باہر چلے جاؤ” گزشتہ روز صدر مملکت عارف علوی نے ارشد شریف کی والدہ، اسکی بیوہ اور بچوں سے ملاقات کی تو ارشد شریف کی بیٹی نےصدر مملکت عارف علوی سے سوال کیا کہ وہ کون تھا؟ جس نے میرے ابو کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا مگر صدر مملکت نے عمران خان کا نام لئے بغیر آئیں بائیں شائیں کرکے طفل تسلیاں دیں، عمران خان نے کسی شواہد کے بغیر ارشد شریف کے قتل کا براہ راست الزام اداروں پر لگا دیا تو پاک فوج کے ہیڈ کوارٹر جی ایچ کیو نے حکومت کو خط لکھا کہ اعلی سطحی کمیشن بناکر اس قتل کی تحقیقات کی جائیں اور قومی سلامتی کے اداروں پر من گھڑت الزامات لگانے والوں کے خلاف ایکشن لیا جائے

وزارت داخلہ نے اس قتل کی تحقیقات کے لیے جوڈیشل کمیشن بنانے کا اعلان کرتے ہوئے حساس اداروں، ایف آئی اے پر. مشتمل ایک تحقیقاتی کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے کمیٹی کا اعلان ہونے کے بعد آزاد اور شفاف تحقیقات کرنے والی کمیٹی سے آئی ایس آئی کے نمائندے کا نام نکال دیا گیا جو کہ اہم سوالیہ نشان ہے تاہم تحقیقاتی کمیٹی جلد کینیا کا دورہ بھی کرے گی، اس حادثے یا قتل پر دنیا بھر کا میڈیا امریکی دفتر خارجہ، اقوام متحدہ سمیت مختلف ممالک نے کینیا سے شفاف تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے جس پر کینیا کے حکام نے دنیا کو شفاف تحقیقات کا یقین دلایا ہے سینئر صحافی ارشد شریف کے قتل کے حوالے سے کینیا کا میڈیا نئی پولیس رپورٹ سامنے لایا ہےاس سے قبل بھی کینیا کے قومی اخبار دی سٹار نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ کینیا کے معروف اخبار ’دا سٹار‘ نے دعویٰ کیا ہے کہ صحافی ارشد شریف کی موت غلط شناخت کے باعث پولیس کی فائرنگ سے ہوئی۔کینیا کے دارالحکومت نیروبی سے شائع ہونے والے ایک اخبار دا سٹار کے مطابق مگادی ہائی وے پر اتوار کی رات ارشد شریف کو پولیس نے اس وقت سر میں گولی مار کر قتل کر دیا جب انہوں نے اور ان کے ڈرائیور نے مبینہ طور پر ایک پولیس ناکے کی خلاف ورزی کی تھیبعد میں ڈرائیور نے پولیس کو بتایا کہ وہ اور ان کا مقتول ساتھی ڈویلپر تھے اور مگادی میں ایک سائٹ کی طرف جا رہے تھےکینیا کی نیشنل پولیس نے ابتدائی رپورٹ جاری کی، کینیا کی انڈیپنڈنٹ پولیس اوور سائٹ اتھارٹی کی چیئرپرسن این ماکوری نے پاکستانی سینئر صحافی و ٹی وی اینکر ارشد شریف کے پولیس کے ہاتھوں قتل کے حوالے سے پریس کانفرنس کی ہے۔ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ شام کجیاڈو کاؤنٹی میں ایک پاکستانی کو مبینہ طور پر پولیس نے قتل کر دیا، ریپیڈ رسپونس ٹیم جائے حادثہ پر بھیج دی گئی ہے۔کینیا کی انڈیپنڈنٹ پولیس اوور سائٹ اتھارٹی کی چیئرپرسن کا کہنا ہے کہ پاکستانی شہری کا نام ارشد محمد شریف ہے جن کی عمر 50 سال تھی۔انہوں نے مزید کہا ہے کہ ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کی جا رہی ہیں، صحافی کے قتل سے متعلق اتھارٹی کی تحقیقات شفاف ہوں گی۔کینیا کی انڈیپنڈنٹ پولیس اوور سائٹ اتھارٹی کی چیئرپرسن این ماکوری کا یہ بھی کہنا ہے کہ نیشنل پولیس سروس ارشد شریف کے قتل کی تحقیقات کر رہی ہے.آج پاکستانی سینئر صحافی ارشد شریف کے قتل کے حوالے سے کینیا کا میڈیا نئی پولیس رپورٹ سامنے لایا ہے جس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ روکے جانے پر کار سے جی ایس یو آفیسرز پر فائرنگ کی گئی۔کینین میڈیا کے مطابق اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جی ایس یو آفیسرز پر فائرنگ سے 1 کانسٹیبل زخمی ہوا جس کے بعد جوابی فائرنگ کی گئی۔کینین میڈیا کے مطابق نیروبی میں ارشد شریف کی میزبانی خرم احمد کر رہے تھے، واقعے کے دن ارشد شریف اور خرم احمد نے انٹرٹینمنٹ کمپلیکس میں وقت گزارا تھا، نیروبی سے کچھ دور کاموکورو میں واقع انٹرٹینمنٹ کمپلیکس میں شوٹنگ رینج بھی تھی، یہ شوٹنگ رینج نشانہ بازی کے شوقین پاکستانیوں میں مقبول ہے۔کینین میڈیا نے بتایا ہے کہ 23 اکتوبر کو درج کی گئی پولیس رپورٹ کے مطابق ارشد شریف کی کار پر روڈ بلاک ہونے کی خلاف ورزی پر فائرنگ ہوئی، جس کار کی چوری کی اطلاع پر روڈ بلاک کیا گیا تھا وہ اور ارشد شریف کی کار کی کمپنی مختلف تھی۔۔کینین میڈیا کا مزید کہنا ہے کہ پولیس کے مطابق فائرنگ کی آواز سن کر خرم احمد نے 26 کلو میٹر دور ٹنگا میں مقیم پاکستانی وقار احمد نامی شخص کو فون کیا، وقار احمد نے خرم احمد کو گاڑی اپنے گھر کی طرف لانے کا کہا۔کینین میڈیا کا یہ بھی کہنا ہے کہ پولیس کے مطابق جب گاڑی وقار احمد کے گھر پہنچی اس وقت تک ارشد شریف انتقال کر چکے تھے، اسوقت مختلف زاویوں سے اس المناک واقعے کے حقائق سامنے آنے لگے ہیں جبکہ پاکستانی تحقیقاتی کمیشن نے بھی اپنا کام شروع کر دیا ہے اور ان سوالات کے جوابات سامنے لائے جائیں گے کہ آخر عمران خان اور خیبر پختونخوا حکومت کو ارشد شریف کی جان کو خطرات لاحق ہونے بارے کیسے پتہ چلا اور وہ کون سے عناصر تھے؟ کے پی کے حکومت نے پاکستانی اداروں کو ان خطرات سے کیوں آگاہ نہیں کیا ؟ عمران خان نے آخر ارشد شریف کو ملک چھوڑنے پر کیوں مجبور کیا؟ ارشد شریف سے نیروبی میں کون کون رابطے میں تھا؟ ارشد شریف کا دبئی ویزہ ختم ہونے کے بعد آخر تحریک انصاف نے کسی دوسرے ملک میں بھجوانے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ حکومت پاکستان کی تردید کے بعد آخر وہ کون لوگ تھے جنہوں نے ارشد شریف کو دبئی چھوڑنے پر مجبور کیا؟ ڈرائیور خرم اور وقار نامی دو اشخاص کون ہیں اور ارشد شریف ان تک کیسے پہنچے؟ ارشد شریف نے کینیا پولیس سے اپنی شناخت کیوں چھپائی؟ وغیرہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اینکر پرسن ارشد شریف نے گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان میں بڑے بڑے مگرمچھوں کو للکارا انکی جائز و ناجائز دولت، ذرائع آمدن، غیر قانونی سرگرمیوں سے پردہ اٹھایا جن میں پراپرٹی ٹائیکون ملک ریاض سر فہرست ہیں جبکہ تحریک انصاف کی چھتری تلے آنے سے قبل ارشد شریف نے فارن فنڈنگ سے لیکر لندن کی آزاد زندگی پر عمران خان کا کچا چٹھا بھی باہر نکالا، شریف خاندان سے آصف زرداری تک بڑی بڑی بااثر شخصیات اور انکے خاندانوں بارے ہوش ربا انکشافات اپنی تحقیقاتی رپورٹس ٹی وی چینل پر چلا کر انہیں بہت Damage کیا، ان میں اعلی سرکاری افسران بھی شامل ہیں،

ارشد شریف کی صحافت کا شکار بننے والے ماضی کے انتہائی بااثر سرکاری افسر سابق چئیرمین SECP ظفر حجازی نے ارشد شریف کی موت کے بعد اپنے ٹویٹر اکاؤنٹ پرلکھا “ارشد شریف نے میرے خلاف چویدری شوگر ملز اور ملتان میٹرو کے حوالے سے درجنوں ہروگرام کیے جس کے لیے اس نے کبھی میرا موقف جاننا بھی ضروری نہ سمجھا۔اس نے میرے بیٹے ارسلان ظفر پہ بھی حساس معلومات بھارت کو دینے کا الزام لگایا۔میں اپنی طرف سے اسے معاف کرتا ہوں، الہی مغفرت فرمائیں۔آمین”جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی موت سے قبل اس پر مختلف عناصر بھی سیخ پا تھے جنہیں ارشد شریف کے پروگرامز کے زریعے شدید زہنی، مالی اور کاروباری نقصان پہنچے اس لیے سیاسی اور سرکاری سطح کی مخالفت سے ہٹ کر بھی شفاف تحقیقات کی اشد ضرورت ہے،کیوں کہ کینیا میں اب بہت سے” بھارتی اور پاکستانی امیرزادے” اپنا اثر رسوخ رکھتے ہیں جن میں ریئل اسٹیٹ کے کاروبار سے وابستہ شخصیات بھی شامل ہیں.، جو ارشد شریف کی قومی سلامتی کے اداروں پر بےجا تنقید کا فائدہ اٹھا کر اپنے مزموم مقاصد حاصل کرسکتے ہیں.