آزادی کس سے لیں گے؟؟؟

تحریر :حجاب رندھاوا

جاپان 1960 تک ایٹمی راکھ کا ڈھیر تھا اپاہج لوگوں اور پھوٹتی بیماریوں کا مسکن چین 1980 تک عوام کی بنیادی ضرورت یعنی خوراک پوری کرنے کے لیے تگ و دو کر رہا تھااسرائیل جس کے وجود کا اعلان پاکستان بننے کے سال بعد ہواوہ اسرائیل جس کی آبادی صرف 92 لاکھ ہے جو کہ ہمارے شہر لاہور سے بھی چھوٹا ہےمندرجہ بالا تمام ممالک ہم سے آگے نکل گئے

جاپان جدید ترین ملک چین دنیا کی بڑی معیشتاسرائیل سائنس‘ ٹیکنالوجی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں پوری دنیا کو لیڈ کر رہا ہے‘ گوگل‘ فیس بک‘ ٹویٹر‘ یوٹیوب‘ ایپل کمپنی اور ایمازون اپنے تمام نئے فیچرز اسرائیل سے بنوائے جاتے ہیں ۔لیکن ہم کہاں ہیںہم پستی کی انتہائی نچلی سطح پر ہیںادھار سے چلتی معیشت اور کرسی کے پیچھے بھاگتی قیادت ،اور قیادت کے کھوکھلے نعروں کے پیچھے بھاگتی عوام یہ ہیں وہ عوامل جنھوں نے ملکر ہمیں فیل اسٹیٹ کے دہانے پہ لا کھڑا کیا ہےسیاسی استحکام ہی ملک میں سرمایہ کاری لاتا ہے جو روزگار کے مواقع پیدا کرتا ہے روپیہ سرکل کرتا ہے اور معیشت پروان چڑھتی ہے جبکہ ہمارے ملک میں کبھی سیاسی استحکام آ ہی نہیں سکا اگر پی ٹی آئی حکومت میں تو ن لیگ سڑکوں پر اور اگر ن لیگ حکومت میں تو پی ٹی آئی سڑکوں پراس سیاسی کھیل میں عوام کے حصے میں صرف بریانی آئیالبتہ اس کھیل میں ریاست پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گئی معیشت تباہ ہوتی گئی سرمایہ کاری کے دروازے بند ہو رہے جہاں فیصلے سڑکوں پر ہوں وہاں سرمایہ کاری کون کرے حتی کہ وہ امدادی ہاتھ جنھوں نے ہر مشکل میں پاکستان کو سنبھالا دیا اس صورت حال میں کنارہ کش ہوتے نظر آ رہے ہیں سابق وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور دھرنے کے اعلان کے باعث سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کا دورہ پاکستان ملتوی کر دیا گیا ہے۔اس سے قبل عمران خان کے دھرنے کے باعث چینی صدر کا دورہ منسوخ ہوا تھایہ وہ ہاتھ تھے جو ہر مشکل میں پاکستان کو سنبھالا دیتے آئے بیرونی سرمایہ کاری تو ان جلسے جلوسوں سے متاثر ہے ہی لیکن اس غریب قرض دار ملک کو اپنے لیڈر عمران خان کی سیکیورٹی کے اخراجات کی مد میں ماہانہ 2.19 ملین اور سالانہ 26.30 ملین ادا کرنے پڑ رہے ہیں پاکستان کرسی کی یہ لڑائی روزانہ اربوں روپے کے نقصان کی صورت میں برداشت کر رہا ہے سڑکیں بند ہونے سے معیشت کا پہیہ رکتا ہے روزگار بند اور چولہے ٹھنڈے ہو رہے ہیںیہ لانگ مارچ اب تک متعدد جانیں لے چکا ہےآنے والے وقت میں خدانخواستہ اگر اس عدم استحکام کا فائدہ بیرونی قوتیں اٹھانے کے لیے کود پڑی تو یہ عوام جو پہلے ہی مہنگائی اور بیروزگاری کا شکار ہے کدھر جائے گی افغانیوں کو تو ہجرت کے لیے پاکستان میسر تھا پاکستانیوں کے لیے کونسی جائے پناہ ہے؟؟ خدا خوفی کریں آپ کیسے لیڈر ہیں؟

آپ کی عقل کہاں چلی گئی؟ آپ کی آنکھ کب کھلے گی؟ کیا آپ حکومت پانے کے لیے ملک ڈبو دیں گےقائداعظم کے بعد عمران خان دوسرے لیڈر تھے جنھیں عوام اور اسٹیبلشمنٹ کی اتنی سپورٹ ملی لیکن افسوس انھوں نے ملک کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جو انھوں نے توشہ خانے کی گھڑی کے ساتھ کیا تھا آج اگر ان سے گھڑی کے بارے میں پوچھا جائے تو یہ مسکرا کر کہتے ہیں گھڑی میری تھی‘ میں نے بیچ دی اور ملک کے بارے میں بھی شاید ان کا یہی خیال ہے‘ میرا ملک ہے تباہ ہو رہا ہے تو کیا ہوابےشک احتجاج پاکستان کے ہر فرد کا جمہوری حق ہے لیکن پی ٹی آئی آئے دن ہنگامہ آرائی کرکے اس حق کا غلط استعمال کر رہی ہےدنیا کی سب سے تیز چھری کا نام عقیدت ہے، عقل کی شہ رگ کاٹ دیتی ہے اگر یہ عقیدت عقل کو بےیارو مدد گار نا چھوڑتی تو عمران خان کے مقلدین ان سے چند سوال ضرور کرتےکہ آزادی کی شکل کیا ہےہم اگر ناچتے جھومتے جلوس لیکر اسلام آباد جانے میں کامیاب ہو بھی گئے تو ہم آزادی کس سے لیں گےکیا آزادی کا نام عمران خان کو وزیر اعظم کی کرسی پر بٹھانا ہےکیا وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھ کر عمران خان صاحب جو پچھلے 4 سالوں میں نا کر سکے وہ کر ڈالیں گے وہ کروڑوں نوکریاں کروڑوں گھر وہ بغیر پروٹوکول عوامی وزیر اعظم…کیا یہ سب ممکن ہے؟؟ کیا بغیر سفارش کسی بھی محکمے میں مسائل حل ہو سکیں گےکیا جو چینی، کھاد، ادویات ،آٹا مافیا عمران خان دور میں عوام سے لوٹ مار کرتا رہا وہ اب پھر سے وزارتیں ملنے کے بعد عوام پر رحم کھائے گاعوام تو خان کو کرسی لے دے گی لیکن عوام ان مافیا کی قیدی ہے اور وہ مافیا عمران خان کے ارد گرد کنٹینر پر کھڑے ہی پائے جاتے ہیں ایسے میں عوام کی اس سسٹم سے آزادی کیوں کر ممکن ہے‏حلفاً بتائیے کہ اس ملک میں سیاست کے نام پر جو جو ہو رہا ہے کیا وہ غریب عوام کی دال روٹی، یتیموں کی تعلیم، بیواؤں کی چھت اور محنت کشوں کے روزگار کے لئے ہو رہے ہے؟؟ ہر ایک کو ہر قیمت پر اقتدار چاہئیے غریب عوام کے لئے نہیں اپنی انا، اپنے پروٹوکولز اور اپنی مقبولیت کے لئے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *